مغربی ایتھوپیا میں ایک ’لرزہ خیز‘ حملے میں درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔ اس علاقے میں تصادم کی صورت حال بدتر ہونے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیز حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
اشتہار
انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک ادارے نے اتوار کے روز بتایا کہ مغربی ایتھوپیا میں بندوق برداروں نے ایک بس پر حملہ کرکے کم از کم 34 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔
ایتھوپیائی ہیومن رائٹس کمیشن (ای ایچ آر سی) نے بتایا کہ اس لرزہ خیز حملے کا واقعہ اتوار کے روز بینی شانگل۔گمز علاقے میں پیش آیا۔ بندوق برداروں نے ایک بس پر حملہ کرکے 34 افراد کو ہلاک کردیا۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
حملے کا سبب ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے۔
خیال رہے کہ ایتھوپیا میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد کے واقعات میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ای ایچ آر سی نے مزید بتایا کہ تین دیگر علاقوں میں بھی'اسی طرح کے حملوں کی خبریں‘ ہیں۔ یہ حملے ان لوگوں پر بھی کیے گئے جو پناہ لینے کے لیے دوسری جگہوں پر جارہے تھے۔
ای ایچ آرسی کے سربراہ ڈینیل بیکلے نے ایک بیان میں کہا ”یہ تازہ ترین حملہ انسانی جانوں کے افسوس ناک اتلاف میں مزید اضافہ ہے، جسے ہم اجتماعی طور پر برداشت کررہے ہیں۔‘
ہرار، ایتھوپیا میں مسلمانوں کا مقدس شہر
ہرار ایتھوپیا میں اسلام کا مرکز ہے اور اسے دنیا میں مسلمانوں کا چوتھا مقدس ترین شہر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کے بازاروں اور تنگ گلیوں میں ہر وقت گہماگہمی رہتی ہے۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک قدیم مشرقی شہر
ہرار کی بنیاد دسویں سے تیرہویں صدی کے درمیان یہاں نقل مکانی کر کے آنے والے عربوں نے رکھی تھی۔ اس شہر کے قدیمی حصے تک رسائی پانچ بڑے دروازوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور یہاں زیادہ تر اُورومو نسل آباد ہے۔ سن دو ہزار چھ سے یہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
مسلمان زائرین کی منزل
اس شہر میں بیاسی چھوٹی بڑی مساجد کے علاوہ ایک سو سے زائد مزار بھی ہیں۔ جامع مسجد اس کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد ہے۔ ایتھوپیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک مسجد خواتین کے لیے
جامع مسجد وہ واحد مسجد ہے، جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لیے مسجد کی دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ رکھا گیا ہے۔ لیکن خواتین مسجد کے صحن یا بیرونی حدود میں بھی نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
امن کا شہر
قدیم شہر کی دیواروں کے اندر دو چرچ بھی واقع ہیں۔ میدان علم چرچ یہاں کا واحد آرتھوڈکس چرچ ہے۔ ہرار کے باشندوں کو یہاں قائم مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہاں زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ مسائل سامنے آئے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
تصوف کے ذریعے پاکیزگی
ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد آبادی والے اس شہر کو یہاں کی صوفیانہ تعلیمات منفرد بناتی ہیں۔ سب سے مقدس مزار شیخ ابادر کا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا شمار اس شہر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر ایسے مریدین کا بھی ہجوم رہتا ہے، جو نشے آور قات نامی پودے کے پتے چباتے رہتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
قات کے پتے
شروع میں قات کے پتوں کو صرف روحانی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایتھوپیا بھر میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ہرار کا مضافاتی علاقہ اب بھی ان پتوں کی تجارت اور استعمال کا مرکز ہے۔ علاقے کی ستر فیصد زراعت اسی پر مشتمل ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان پتوں کا استعمال کرتی ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
کپڑوں کی خریداری
ہرار کی معیشت کپڑوں کی صنعت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کے مرکزی بازار کو ’مکینا گِر گِر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام یہاں جگہ جگہ رکھی ہوئی سلائی مشینوں کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ لوگ یہاں سے ہی کپڑے خریدتے ہیں اور انہیں یہاں بیٹھے ہوئے درزیوں کو ہی سینے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
سات دن ہی مارکیٹ کھلی ہے
بازاروں میں صبح صبح ہی ہجوم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے مضافات سے بھی اُورومو نسل کے لوگ اپنے اشیاء بیچنے کے لیے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک گدھوں کے ذریعے کئی گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں اسمگلر مارکیٹ، مسلم مارکیٹ، تازہ سبزی مارکیٹ اور مصالہ مارکیٹ سب سے مشہور ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
اونٹوں کی مارکیٹ
ہرار سے چالیس کلومیٹر دور اونٹوں کی مشہور مارکیٹ واقع ہے۔ یہ ایک ہفتے میں دو مرتبہ لگتی ہے۔ صرف ایک صبح میں دو سو سے زائد اونٹ فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر صومالیہ کے گلہ بان تاجر ہوتے ہیں۔ اونٹ سفر اور خوراک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
9 تصاویر1 | 9
سکیورٹی بحران میں اضافہ
ایتھوپیا کے شمالی تیگرائی علاقے میں فوجی مہم کے بعد سے ملک میں سکیورٹی کے خلاء میں اضافہ ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران اسی علاقے میں ایسے کئی لرزہ خیز حملے ہوچکے ہیں۔ اکتوبر میں ہونے والے حملے میں 12 افراد ہلاک اور ستمبر میں ہونے والے حملے میں 15 افراد ہوئے تھے۔
اشتہار
بیکلے کا کہنا تھا کہ بینی شانگل۔گمزمیں شہریوں پرجس طرح حملوں کے تعداد بڑھتے جارہے ہیں اس کے مدنظر زیادہ چوکسی اور علاقائی اور وفاقی فورسز کے درمیان مزید تال میل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا”ہم وفاقی اور علاقائی سکیورٹی اور عدالتی حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ علاقائی سکیورٹی کا نیا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مقامی کمیونٹی کے صلاح و مشورے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ ان حملوں پر مستقل روک لگائی جاسکے۔"
وزیر اعظم ابی احمد نے اس طرح کے سابقہ حملوں کے لیے پڑوسی ملک سوڈان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
تیگرائی تصادم سے کوئی تعلق نہیں
بینی شانگل۔گمز میں ہونے والے حملوں اور وسطی ایتھوپیائی حکومت اور تیگرائی جنگجووں کے درمیان پیش آنے والے تصادم کے حالیہ واقعات کے مابین کسی طرح بظاہرکوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے۔
تیگرائی میں 12دنوں سے جاری تصادم کی وجہ سے اس کے خطے کے دیگر حصوں میں بھی تشدد پھیل جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
وفاقی حکومت نے پچھلے دو برسوں کے دوران متعدد د ایسی اصلاحات کی ہیں جن کی وجہ سے تیگرائی کی علاقائی حکومت الگ تھلگ پڑ گئی ہے۔
2018میں ابی احمد کے ملک کے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے سے قبل تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ پارٹی (ٹی پی ایل ایف) کی قیادت میں تیگرائیوں کا ایتھوپیا کی فوج اور سیاست پر دہائیوں تک غلبہ تھا۔
ابی احمد نے حکمراں اتحاد کو ختم کرکے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک واحد قومی جماعت میں ضم کردیا تاہم ٹی پی ایل ایف نے اس میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔
ستمبر میں کشیدگی میں اس وقت مزیدا ضافہ ہوگیا جب تیگرائی نے کورونا وائرس کی وبا کے سبب انتخابات پر عائد ملک گیر پابندی کو ماننے سے انکار کردیا۔ حکومت نے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔
تیگرائی کے حکام کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت ان سے اقتدار چھیننے کی کوشش کررہی ہے۔
وزیر اعظم ابی احمد نے 4 ونومبر کو ایک فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کے لیے ٹی پی ایل ایف کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دیا تھا۔ ٹی پی ایل ایف نے تاہم فوجی کیمپ پر حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
ج ا / ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ایتھوپیا کے لوٹے گئے قدیم نوادرات
برطانوی افواج کی جانب سے 1868ء میں ایتھوپیا سے لوٹا گیا خزانہ اب تک توجہ سے محروم تھا۔ لیکن اب برطانوی ادارے یہ فیصلہ کرنے میں مشغول ہیں کہ ان قیمتی نوادارات کو کس طرح استعمال کیا جائے۔
تصویر: James Jeffrey
نیا موضوع بحث
لندن کے مشہور ویکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم میں ایتھوپیا سے لوٹے گئے قدیم نوادرات کی نمائش نے ایک بار پھر اس بحث کو چھیڑ دیا ہےکہ ان کو آخر کس ملک میں رہنا چاہئے۔ اس نمائش میں 1868ء میں جنگ مجدلہ میں فتح کے بعد لوٹی گئی 20 شاہی اور مذہبی نوعیت کی نوادرات رکھی گئی ہیں۔
تصویر: Victoria and Albert Museum, London
سپاہی اور اسکینڈل
جنگ میں فتح کے بعد برطانوی فوج کو آزادی تھی کہ وہ جو چاہیں لوٹ سکتے ہیں۔ ان کا یہ عمل نہ صرف اُس وقت تنازعے کا باعث بنا بلکہ برطانیہ کے لیے باعث شرمندگی بھی تھا۔
تصویر: Victoria and Albert Museum, London
ماضی کے آئینے میں
گزشتہ کئی برسوں سے یورپ اور امریکا کے درمیان ان نوادرات کی واپسی کے معاملے پر بے نتیجہ مباحثے چلے آرہے ہیں۔
تصویر: Victoria and Albert Museum, London
لُوٹا گیا بہترین مال
برطانوی سپاہیوں کی جانب سے کتنا خزانہ لوٹا گیا تھا اس بات کا آج تک حتمی تعین نہیں کیا جا سکا ہے تاہم ایک تاریخ دان کے مطابق سپاہیوں کو جو بھی اس وقت بہترین شے نظر آئی، وہ انہوں نے اپنے قبضے میں لے لی۔ ان میں ہاتھ سے لکھی ایسی نایاب اور اعلیٰ کتب بھی ہیں جو کئی ایتھوپین باشندوں نے کبھی دیکھی نہیں۔
تصویر: James Jeffrey
عالمگیر رکھوالے
گو کہ ان نوادرات کو ایتھوپیا واپس لوٹانے کے لیے کئی مضبوط دلائل موجود ہیں، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپی میوزیم نوادرات کی حفاظت کو نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے۔
تصویر: James Jeffrey
ڈیجیٹل کاپیوں کا کردار
ان نوادرات کی واپسی کی حمایت کرنے والے افراد کہتے ہیں اگر لائبریریاں ان ہاتھ سے لکھی گئی کُتب کو ڈیجیٹل صورت میں لے آئیں، تو دنیا بھر میں ان سے استفادہ حاصل کیا جا سکے گا چاہے وہ اپنے اصل ملک کو کیوں نہ لوٹائی جا چکی ہوں۔