ایتھوپیا: تیگرائی میں لاکھوں افراد قحط سالی کا شکار
11 جون 2021
اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد کو شدید فاقہ کشی کا خطرہ لاحق ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ساڑھے پچاس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی کی بیشتر آبادی کو غذائی امداد کی اشد ضرورت کا سامنا ہے۔ اس کے مطابق فی الوقت خطے کے ساڑھے تین لاکھ سے بھی زیادہ افراد قحط اور فاقہ کشی کے شدید خطرات سے دو چار ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے مطابق تیگرائی کا موجودہ غذائی بحران صومالیہ میں سن 2010 اور 2012 کے درمیان قحط سالی سے بھی زیادہ سنگین ہے۔جب تقریباً ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جس میں سے نصف سے زیادہ بچے تھے۔
اشتہار
دنیا کے لیے تنبیہ
انسانی امور سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ مارک لوکاک نے اس حوالے سے جی سیون کے نمائندوں کی ایک اعلی ورچول میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیگرائی میں، ''اس وقت قحط کا ماحول ہے اور آنے والے دنوں میں، ''صورت حال کے مزید خراب ہونے کے خدشہ ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فوری امداد سے، ''بد ترین صورت حال سے بچا بھی جا سکتا ہے۔''
خوراک اور زاعت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسیف نے جمعرات کے روز مشترکہ طور پر خبردار کیا کہ اگر، ''فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو مزید 20 لاکھ افراد بھوک سے مر سکتے ہیں۔''
لوکاک نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی بعض کلیدی ایجنسیاں مدد کرنا چاہتی ہیں تاہم ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ''حقیقت میں ہم سبھی کو قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔''
اقوام متحدہ میں 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے کا کہنا تھا کہ چونکہ خطے میں کئی علاقوں میں مسلح گروپ رسائی دینے سے منع کرتے ہیں اس لیے دیہی علاقوں کی دور دراز آبادیوں تک امداد نہیں پہنچ پاتی ہے۔ ایجنسیوں کاکہنا ہے کہ اگر انہیں ممنوعہ علاقوں تک رسائی مہیا کی جائے تو وہ امداد پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔
ایتھوپیا کی حکومت نے صوبے تیگرائی میں سرگرم 'تیگرائی پیپلز لیبریشن فرنٹ' کے خلاف گزشتہ نومبر میں فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ اس کی وجہ سے خطے میں تنازعہ بہت تیزی سے پیچیدہ صورت اختیار کر گیا۔
تجزیاتی رپورٹ میں کیا ہے؟
'دی انٹرنیشنل فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن' (آئی پی سی) کی جو تجزیاتی رپورٹ جمعرات کو شائع ہوئی ہے اس میں کہا گیا ہے اس وقت خطے میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ لوگ ایسی انتہائی تباہ کن انڈیکس کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو شدید مشکلات کے زمرے میں آتی ہے۔
اس کے مطابق تقریبا ًسوا تین لاکھ افراد میں غذائی قلت کی سطح بحران کی حد تک پہنچ گئی ہے جبکہ سوا دو لاکھ کے قریب افراد ہنگامی صورت میں جی رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ''یہ شدید بحران تنازعے کے زبردست اثرات کا نتیجہ ہے جس میں آبادی کی نقل مکانی، نقل و حرکت پر پابندیاں، محدود انسانی رسائی، فصل اور روزگار کے اثاثے کا ختم ہونا اور غیر فعال منڈی یا پھر منڈیوں کا یکسر نہ ہونے جیسے عوامل شامل ہیں۔''
اس رپورٹ کے مطابق اگر تنازعہ مزید شدت اختیار کرتا ہے یا کسی اور وجہ سے انسانی امداد میں رکاوٹیں آتی ہیں تو، تیگرائی کے بیشتر علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر خارجہ دیمکے میکونن نے تاہم اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کویہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ غلط معلومات پر مبنی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
ہرار، ایتھوپیا میں مسلمانوں کا مقدس شہر
ہرار ایتھوپیا میں اسلام کا مرکز ہے اور اسے دنیا میں مسلمانوں کا چوتھا مقدس ترین شہر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کے بازاروں اور تنگ گلیوں میں ہر وقت گہماگہمی رہتی ہے۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک قدیم مشرقی شہر
ہرار کی بنیاد دسویں سے تیرہویں صدی کے درمیان یہاں نقل مکانی کر کے آنے والے عربوں نے رکھی تھی۔ اس شہر کے قدیمی حصے تک رسائی پانچ بڑے دروازوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور یہاں زیادہ تر اُورومو نسل آباد ہے۔ سن دو ہزار چھ سے یہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
مسلمان زائرین کی منزل
اس شہر میں بیاسی چھوٹی بڑی مساجد کے علاوہ ایک سو سے زائد مزار بھی ہیں۔ جامع مسجد اس کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد ہے۔ ایتھوپیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک مسجد خواتین کے لیے
جامع مسجد وہ واحد مسجد ہے، جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لیے مسجد کی دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ رکھا گیا ہے۔ لیکن خواتین مسجد کے صحن یا بیرونی حدود میں بھی نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
امن کا شہر
قدیم شہر کی دیواروں کے اندر دو چرچ بھی واقع ہیں۔ میدان علم چرچ یہاں کا واحد آرتھوڈکس چرچ ہے۔ ہرار کے باشندوں کو یہاں قائم مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہاں زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ مسائل سامنے آئے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
تصوف کے ذریعے پاکیزگی
ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد آبادی والے اس شہر کو یہاں کی صوفیانہ تعلیمات منفرد بناتی ہیں۔ سب سے مقدس مزار شیخ ابادر کا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا شمار اس شہر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر ایسے مریدین کا بھی ہجوم رہتا ہے، جو نشے آور قات نامی پودے کے پتے چباتے رہتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
قات کے پتے
شروع میں قات کے پتوں کو صرف روحانی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایتھوپیا بھر میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ہرار کا مضافاتی علاقہ اب بھی ان پتوں کی تجارت اور استعمال کا مرکز ہے۔ علاقے کی ستر فیصد زراعت اسی پر مشتمل ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان پتوں کا استعمال کرتی ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
کپڑوں کی خریداری
ہرار کی معیشت کپڑوں کی صنعت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کے مرکزی بازار کو ’مکینا گِر گِر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام یہاں جگہ جگہ رکھی ہوئی سلائی مشینوں کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ لوگ یہاں سے ہی کپڑے خریدتے ہیں اور انہیں یہاں بیٹھے ہوئے درزیوں کو ہی سینے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
سات دن ہی مارکیٹ کھلی ہے
بازاروں میں صبح صبح ہی ہجوم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے مضافات سے بھی اُورومو نسل کے لوگ اپنے اشیاء بیچنے کے لیے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک گدھوں کے ذریعے کئی گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں اسمگلر مارکیٹ، مسلم مارکیٹ، تازہ سبزی مارکیٹ اور مصالہ مارکیٹ سب سے مشہور ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
اونٹوں کی مارکیٹ
ہرار سے چالیس کلومیٹر دور اونٹوں کی مشہور مارکیٹ واقع ہے۔ یہ ایک ہفتے میں دو مرتبہ لگتی ہے۔ صرف ایک صبح میں دو سو سے زائد اونٹ فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر صومالیہ کے گلہ بان تاجر ہوتے ہیں۔ اونٹ سفر اور خوراک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔