ایتھوپیائی وزیر اعظم کی طرف سے تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ سے ہتھیار ڈالنے کے لیے دیے گئے72گھنٹے کے الٹی میٹم کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ تاریخی مقامات،اداروں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
اشتہار
ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد نے جمعرات کے روز کہا کہ ملکی فوج تیگرائی خطے کی دارالحکومت میکیلے میں باغیوں کے خلاف اپنی کارروائی کسی بھی وقت شروع کرسکتی ہے۔
آبے احمد نے کہا کہ تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) فورسز کو ہتھیار ڈالنے کے لیے دی گئی 72 گھنٹے کی مہلت ختم ہوچکی ہے۔ انہوں نے شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے اپنے گھروں کے اندرہی رہیں۔
ایتھوپیائی وزیر اعظم نے کہا کہ مذہبی اور تاریخی مقامات، اداروں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
وزیر اعظم آبے احمد نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا”ہماری طرف سے دیے گئے 72 گھنٹے کے الٹی میٹم کے دوران تیگرائی ملیشیا اور اسپیشل فورس کے ہزاروں اراکین نے خودسپر کر دیا ہے۔ ہم میکیلے کے رہائشیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہتھیار رکھ دیں، اپنے گھروں کے اندر رہیں اور فوجی اہداف سے دور رہیں۔"
ٹی پی ایل ایف پارٹی، جس کا میکیلے پر کنٹرول ہے، نے کہا ہے کہ وہ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس نے حکومت کے ان دعووں کی تردید کی کہ اس کے بعض فوجیوں نے خود سپردگی کی ہے۔
سوڈان کا راستہ بند
مہاجرین نے خبر رسا ں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ایتھوپیائی آرمی نے جمعرات کے روز سوڈان جانے والی ایک اہم شاہراہ کو بند کر دیا ہے۔ تصادم کے مدنظر جو لوگ ایتھوپیا سے بھاگنے کی کوشش کررہے تھے، فوجی افسران نے انہیں واپس بھیج دیا ہے۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو ان دعووں کی آزادانہ تصدیق نہیں کرسکا۔ تقریباً ایک ماہ سے جاری تصادم کے دوران فون، موبائل اور انٹرنیٹ مواصلاتی نظام منقطع ہے جس کی وجہ سے تفصیلات کی تصدیق کرنا مشکل ہورہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ایتھوپیائی فوج نے تیگرائی کے مختلف قصبات پر قبضہ کر لیا ہے۔ سینکڑوں افراد مبینہ طور پر قتل کردیے گئے ہیں اور ہزاروں کو اپنے گھر چھوڑ نے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔
ٹی پی ایل ایف کے جنگجو، جن کی تعداد لگ بھگ 25000 ہے، بنیادی طور پر ایک نیم فوجی یونٹ اور مقامی ملیشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
امن مساعی؟
افریقی یونین، تصادم کو ختم کرنے کے خاطر ثالثی کے لیے اپنے تین نمائندوں کو تیگرائی بھیجنا چاہتی ہے۔ افریقی یونین کا صدر دفتر ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں ہے۔
دوسری طرف ایتھوپیائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اس کا داخلی معاملہ ہے جس کی وجہ سے قومی سلامتی متاثر ہورہی ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیموں کا خیال ہے کہ جنگ کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ ہزاروں مہاجرین پہلے ہی تیگرائی سے سوڈان پہنچ چکے ہیں۔ تاہم وہ جن علاقوں میں پہنچے ہیں وہاں بنیادی انسانی سہولیات کا فقدان ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ فریقین کو شہریوں کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میکیلے شہر میں فوجی کارروائی کے سلسلے میں محض وارننگ دے دینے سے حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا”ہمیں ان خبروں پر بھی تشویش ہے کہ ٹی پی ایل ایف نے گھنی آبادی والے علاقوں میں فورسز تعینات کردیے ہیں۔ انہیں اپنے کنٹرول والے علاقوں میں رہنے والے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔"
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
ایتھوپیا سے فرار ہونے والے انوآک مہاجرین کی حالت زار
ایتھوپیا میں انوآک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد عشروں سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ متعدد انوآک باشندے پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی حالت زار کیا ہے اور یہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
تصویر: DW/T. Marima
خاندان سے دوبارہ ملاپ
انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
ٹھہر جائیں یا واپس چلے جائیں؟
اس تصویر میں انوآک اقلیت کے بچے مہاجر کیمپ کے باہر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چام نے بغاوت کے الزام میں ایتھوپیا کی جیل میں کئی سال گزارے ہیں۔ اُس کی رائے میں ایتھوپیا واپس جانا انوآک نسلی اقلیت کے لوگوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: DW/T. Marima
بالآخر تحفظ مل گیا
مہاجر خاتون اکواٹا اوموک بھی جنوبی سوڈان کے اس مہاجر کیمپ میں مقیم دو ہزار ایتھوپین مہاجرین میں سے ایک ہیں جو نسل کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد سے فرار ہو کر یہاں آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
کیا گھر واپس جانا بھی ایک راستہ ہے؟
جنوبی سوڈان میں دارالحکومت جوبا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی اکواٹا اوموک چودہ سال قبل ترک وطن سے پہلے کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے باوجود اوموک ایتھوپیا واپس جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اگر ایتھوپیا اب آزاد ہے تو میں واپس جاؤں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر جانا ممکن نہیں۔‘‘
تصویر: DW/T. Marima
اہل خانہ ایک دوسرے سے جدا
گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی ایک خاتون جلانے کے لیے لکڑی کاٹ رہی ہے۔ ایتھوپیا سے نسلی تشدد کے سبب فرار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ مرد حضرات کو اکثر بغاوت کا الزام عائد کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں عموماﹰ عورتوں کو ہی گھر کے تمام کام سرانجام دینے پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
گوروم مہاجر کیمپ کیا واقعی محفوظ ہے؟
انوآک اقلیت کے کچھ بچے کیمپ میں ایک ایسے بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر لکھا ہے کہ یہ کیمپ اسلحہ فری زون ہے۔ تاہم اس کیمپ پر بھی اس وقت حملہ ہو چکا ہے جب جنوبی سوڈانی مسلح گروپ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
گھر سے دور
ایتھوپیا کے نو منتخب وزیر اعظم آبی احمد نے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف نسلی گروہوں کو دیوار سے لگانے کے معاملے کو بھی حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں بدلتی سیاسی فضا کے باوجود تاہم نسلی بنیادوں پر ظلم اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تازہ تنازعے کے سبب ایتھوپیا سے ایک ملین افراد فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
مہاجرین کے نئے قافلے
اس تصویر میں گوروم مہاجر کیمپ کے استقبالیے پر انوآک مہاجرین کے ایک نئے گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے اوسطاﹰ پندرہ سے بیس مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔