ایتھوپیا: حکومتی فوج نے تیگرائی دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا
24 نومبر 2020
ایتھوپیا کی حکومت کا کہناہے کہ ہی حکومتی فوج نے تیگرائی کے علاقائی دارالحکومت میکیلے کا محاصرہ کرلیا ہے تاہم منحرف تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔
اشتہار
ایتھوپیائی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ حکومتی افواج نے تیگرائی کے علاقائی دارالحکومت میکیلے کا محاصرہ کرلیا ہے، لیکن تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔ گزشتہ تین ہفتے سے جاری تصادم نے ایتھوپیا اور پورے خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد نے تیگرائی کی حکمراں جماعت ٹی پی ایل ایف کو اتوار کے روز 72 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ خودسپرد کردے ورنہ آخری معرکے کے لیے تیار ہوجائے۔
گزشتہ تین ہفتے سے جاری جنگ کی وجہ سے ایتھوپیا اور وسیع تر قرن ِافریقہ دونوں ہی عدم استحکام کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایتھوپیائی حکومت کے ترجمان رضوان حسین نے کل کہا کہ 'خاتمے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔‘
ٹی پی ایل ایف کی قیادت میں 1991 میں مسلح جد و جہد کے بعد ایتھوپیا کی فوجی ڈیرگ حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا۔ اس نے 2018 میں آبے احمد کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے تقریباً تین عشرے تک ایتھوپیا پر حکومت کی۔
آبے کے اقتدار پر فائز ہونے کے بعد سے تیگرائی رہنماوں نے الزام لگا یا کہ ان پر بدعنوانی کے جھوٹے الزامات لگا کر انہیں نشانہ بنایا گیا، اعلی حکومتی عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور ملک کی بدحالی کے لیے بڑی حد تک انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔
تیگرائی خطے میں اس ماہ کے اوائل سے بغاوت جیسی صورت حال ہے۔ 4 نومبر کو ٹی پی ایل ایف کی وفادار سکیورٹی فورسز نے میکیلے میں ایتھوپیائی نیشنل ڈیفنس فورسز (ای این ڈی ایف) کے شمالی کمان پر حملہ کردیا تھا، جس میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ کورونا کے مدنظر قومی انتخابات ملتوی کیے جانے کے آبے احمد کے فیصلے کو ٹی پی ایل ایف نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
تصادم اور مہاجرت
تیگرائی خطے میں جنگ سے بچنے کے لیے اب تک تقریباً چالیس ہزار پناہ گزین ایتھوپیا سے سوڈان ہجرت کرچکے ہیں۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان بابر بلوچ نے کہا کہ پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد تشویش کا باعث ہے۔
بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد نے ہم سب کو دباو میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت پناہ گزینوں کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی کوششوں پر توجہ دی جارہی ہے۔"
بلوچ نے مزید کہا کہ ''یہ سوڈان میں دور افتادہ مقامات میں، جو بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے، ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ آنے والوں کی تعد اد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔" انہوں نے کہا کہ یو این ایچ سی آر سوڈانی حکام کے ساتھ مل کر ملک کے زیادہ اندر کے علاقے میں پناہ گزینوں کے لیے ایک کیمپ تیار کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایتھوپیا سے فرار ہونے والے انوآک مہاجرین کی حالت زار
ایتھوپیا میں انوآک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد عشروں سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ متعدد انوآک باشندے پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی حالت زار کیا ہے اور یہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
تصویر: DW/T. Marima
خاندان سے دوبارہ ملاپ
انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
ٹھہر جائیں یا واپس چلے جائیں؟
اس تصویر میں انوآک اقلیت کے بچے مہاجر کیمپ کے باہر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چام نے بغاوت کے الزام میں ایتھوپیا کی جیل میں کئی سال گزارے ہیں۔ اُس کی رائے میں ایتھوپیا واپس جانا انوآک نسلی اقلیت کے لوگوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: DW/T. Marima
بالآخر تحفظ مل گیا
مہاجر خاتون اکواٹا اوموک بھی جنوبی سوڈان کے اس مہاجر کیمپ میں مقیم دو ہزار ایتھوپین مہاجرین میں سے ایک ہیں جو نسل کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد سے فرار ہو کر یہاں آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
کیا گھر واپس جانا بھی ایک راستہ ہے؟
جنوبی سوڈان میں دارالحکومت جوبا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی اکواٹا اوموک چودہ سال قبل ترک وطن سے پہلے کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے باوجود اوموک ایتھوپیا واپس جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اگر ایتھوپیا اب آزاد ہے تو میں واپس جاؤں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر جانا ممکن نہیں۔‘‘
تصویر: DW/T. Marima
اہل خانہ ایک دوسرے سے جدا
گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی ایک خاتون جلانے کے لیے لکڑی کاٹ رہی ہے۔ ایتھوپیا سے نسلی تشدد کے سبب فرار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ مرد حضرات کو اکثر بغاوت کا الزام عائد کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں عموماﹰ عورتوں کو ہی گھر کے تمام کام سرانجام دینے پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
گوروم مہاجر کیمپ کیا واقعی محفوظ ہے؟
انوآک اقلیت کے کچھ بچے کیمپ میں ایک ایسے بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر لکھا ہے کہ یہ کیمپ اسلحہ فری زون ہے۔ تاہم اس کیمپ پر بھی اس وقت حملہ ہو چکا ہے جب جنوبی سوڈانی مسلح گروپ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
گھر سے دور
ایتھوپیا کے نو منتخب وزیر اعظم آبی احمد نے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف نسلی گروہوں کو دیوار سے لگانے کے معاملے کو بھی حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں بدلتی سیاسی فضا کے باوجود تاہم نسلی بنیادوں پر ظلم اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تازہ تنازعے کے سبب ایتھوپیا سے ایک ملین افراد فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
مہاجرین کے نئے قافلے
اس تصویر میں گوروم مہاجر کیمپ کے استقبالیے پر انوآک مہاجرین کے ایک نئے گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے اوسطاﹰ پندرہ سے بیس مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
8 تصاویر1 | 8
تیگرائی کے عوام'جان دینے کے لیے تیار ہیں‘
ٹی پی ایل ایف کے رہنما نے میکیلے کے گرد محاصرہ کرنے کے ایتھوپیائی فورسز کی دعووں کی تردید کی ہے۔ ٹی پی ایل ایف کے رہنما ڈیبریٹسیون گیبرمائیکل نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اس طرح کا کوئی محاصرہ نہیں ہے۔" انہوں نے خودسپردگی کے لیے ایتھوپیائی حکومت کی طرف سے الٹی میٹم کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ ان کے لوگ اپنی مادر وطن کا دفا ع کرنے کے لیے ’اپنی جان دینے کو تیار‘ ہیں۔
اشتہار
وقت ختم ہوتا جا رہا ہے
گزشتہ برس کے نوبل امن انعام یافتہ ایتھوپیائی وزیر اعظم آبے احمد نے اتوار کے روز ٹی پی ایل ایف سے کہا تھا کہ وہ تین روز کے اندر پرامن طریقے سے خودسپردگی کردے۔ آبے احمد کے مطابق ”اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا ہے۔''
اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر سوزین رائس کا کہنا تھا کہ اگر آبے احمد اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہیں تو یہ 'جنگی جرائم‘ کے مترادف ہوگا۔ امریکا اور اقوام متحدہ نے انسانی بحران کی جانب بڑھتے ہوئے ایتھوپیا کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چونکہ تیگرائی خطہ ایتھوپیا کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع ہے اور یہاں ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم بلیک آوٹ ہے اس لیے دونوں فریقین کے دعووں کی تصدیق مشکل ہے۔
ج ا / ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)
ہرار، ایتھوپیا میں مسلمانوں کا مقدس شہر
ہرار ایتھوپیا میں اسلام کا مرکز ہے اور اسے دنیا میں مسلمانوں کا چوتھا مقدس ترین شہر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کے بازاروں اور تنگ گلیوں میں ہر وقت گہماگہمی رہتی ہے۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک قدیم مشرقی شہر
ہرار کی بنیاد دسویں سے تیرہویں صدی کے درمیان یہاں نقل مکانی کر کے آنے والے عربوں نے رکھی تھی۔ اس شہر کے قدیمی حصے تک رسائی پانچ بڑے دروازوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور یہاں زیادہ تر اُورومو نسل آباد ہے۔ سن دو ہزار چھ سے یہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
مسلمان زائرین کی منزل
اس شہر میں بیاسی چھوٹی بڑی مساجد کے علاوہ ایک سو سے زائد مزار بھی ہیں۔ جامع مسجد اس کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد ہے۔ ایتھوپیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک مسجد خواتین کے لیے
جامع مسجد وہ واحد مسجد ہے، جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لیے مسجد کی دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ رکھا گیا ہے۔ لیکن خواتین مسجد کے صحن یا بیرونی حدود میں بھی نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
امن کا شہر
قدیم شہر کی دیواروں کے اندر دو چرچ بھی واقع ہیں۔ میدان علم چرچ یہاں کا واحد آرتھوڈکس چرچ ہے۔ ہرار کے باشندوں کو یہاں قائم مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہاں زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ مسائل سامنے آئے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
تصوف کے ذریعے پاکیزگی
ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد آبادی والے اس شہر کو یہاں کی صوفیانہ تعلیمات منفرد بناتی ہیں۔ سب سے مقدس مزار شیخ ابادر کا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا شمار اس شہر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر ایسے مریدین کا بھی ہجوم رہتا ہے، جو نشے آور قات نامی پودے کے پتے چباتے رہتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
قات کے پتے
شروع میں قات کے پتوں کو صرف روحانی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایتھوپیا بھر میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ہرار کا مضافاتی علاقہ اب بھی ان پتوں کی تجارت اور استعمال کا مرکز ہے۔ علاقے کی ستر فیصد زراعت اسی پر مشتمل ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان پتوں کا استعمال کرتی ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
کپڑوں کی خریداری
ہرار کی معیشت کپڑوں کی صنعت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کے مرکزی بازار کو ’مکینا گِر گِر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام یہاں جگہ جگہ رکھی ہوئی سلائی مشینوں کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ لوگ یہاں سے ہی کپڑے خریدتے ہیں اور انہیں یہاں بیٹھے ہوئے درزیوں کو ہی سینے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
سات دن ہی مارکیٹ کھلی ہے
بازاروں میں صبح صبح ہی ہجوم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے مضافات سے بھی اُورومو نسل کے لوگ اپنے اشیاء بیچنے کے لیے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک گدھوں کے ذریعے کئی گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں اسمگلر مارکیٹ، مسلم مارکیٹ، تازہ سبزی مارکیٹ اور مصالہ مارکیٹ سب سے مشہور ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
اونٹوں کی مارکیٹ
ہرار سے چالیس کلومیٹر دور اونٹوں کی مشہور مارکیٹ واقع ہے۔ یہ ایک ہفتے میں دو مرتبہ لگتی ہے۔ صرف ایک صبح میں دو سو سے زائد اونٹ فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر صومالیہ کے گلہ بان تاجر ہوتے ہیں۔ اونٹ سفر اور خوراک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔