ایتھوپیا کا بحران: تیگرائی باغیوں نے شہروں پر راکٹ داغ دیے
14 نومبر 2020
ایتھوپیا کے شمالی علاقے تیگرائے میں گزشتہ چند دنوں سے مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ اب اس علاقے کے باغیوں نے ایتھوپیا کے شہروں پر راکٹ داغنا شروع کر دیے ہیں۔
اشتہار
افریقی ملک ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس آبابا سے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ افراتفری اور انتشار زدہ شمالی علاقے تیگرائے کے مسلح باغیوں نے امہارا کے شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔
تیگرائی بحران میں جنگی صورت حال چار نومبر سے پیدا ہے، جب ایتھوپیا کی افواج نے تیگرائی محاذِ آزادی نامی تنظیم کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ اس فوجی آپریشن کو شروع کرنے کا حکم امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے وزیر اعظم آبی احمد نے دیا تھا۔
راکٹ حملے
ادیس آبابا سے کیے گئے اعلان کے مطابق تیگرائی باغیوں کی جانب سے راکٹ بحیردار اور غوندار کے بڑے شہروں پر داغے گئے۔ یہ دونوں وفاقی صوبے امہارا کے شہر ہیں اور شمالی تیگرائی علاقے کے قدرے نزدیک ہیں۔ بحیر دار نامی شہر اس ایتھوپیائی صوبے کا دارالحکومت ہے۔ یہ راکٹ تیرہ نومبر بروز جمعہ کی رات داغے گئے تھے۔ ان راکٹوں سے ان شہروں کے ہوائی اڈے کو بھی کسی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امہارا کے مقامی سکیورٹی اہلکار بھی تیگرائے میں ایتھوپیا کی فوج کے ساتھ لڑائی میں شریک ہیں۔
تیگرائی باغیوں کا موقف
ڈھائی لاکھ سے زائد مسلح باغیوں کی مرکزی تنظیم کے سربراہ دیبریستیون گیبر میشل کا کہنا کہ کہ امہارا پر کیے جانے والے راکٹ حملوں سے وہ لاعلم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاہم جو ایئر پورٹ اُن کے علاقے پر حملوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے، وہ یقینی طور پر کسی بھی حملے کا جائز ہدف ہو سکتا ہے۔ اس دوران محاذِ آزادی تیگرائے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بحیر دار اور غوندار کے ہوائی اڈے سے کیے جانے والے فضائی حملوں کے جواب میں راکٹ داغے گئے ہیں۔ یہ بیان مقامی ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔
امہارا میں نقصان
ایتھوپیا کے اس علاقے کے شہر غوندار کے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اب تک دو افراد کی نعشیں پہنچائی گئی ہیں۔ طبی ذرائع نے ان ہلاکتوں کے علاوہ ایک درجن سے زائد زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہلاک اور زخمی عام شہری نہیں ہیں۔ امہارا کی مقامی حکومت کے بیان میں واضح کیا گیا کہ راکٹ گرنے کے بعد ہونے والے دھماکوں سے تھوڑی دیر کے لیے بے چینی اور افراتفری ضرور پھیلی لیکن اس صورتِ حال پر چند منٹوں کے بعد قابو پا لیا گیا۔
مسلح حالات میں اضافہ
ایتھوپیا کے وزیر اعظم کے حکم پر یہ جنگی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ ایسا امکان سامنے آیا ہے کہ یہ لڑائی ایتھوپیا کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ لڑائی میں فوج کو جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ اس تناطر میں وزیر اعظم آبی احمد کا کہنا ہے کہ حکومتی جنگی طیارے صرف باغیوں اور ان کے حامیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
احمد کے مطابق بمباری کا مقصد باغیوں کے اسلحے کے گوداموں اور جنگی سامان کے ذخیروں کو تباہ کرنا ہے۔ اس فوجی ایکشن کے شروع ہونے کے بعد ہزاروں شہری ہمسایہ ملک سوڈان میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اس بحران سے دو لاکھ سے زائد افراد کو نقل مکانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ع ح، ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)
ہرار، ایتھوپیا میں مسلمانوں کا مقدس شہر
ہرار ایتھوپیا میں اسلام کا مرکز ہے اور اسے دنیا میں مسلمانوں کا چوتھا مقدس ترین شہر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کے بازاروں اور تنگ گلیوں میں ہر وقت گہماگہمی رہتی ہے۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک قدیم مشرقی شہر
ہرار کی بنیاد دسویں سے تیرہویں صدی کے درمیان یہاں نقل مکانی کر کے آنے والے عربوں نے رکھی تھی۔ اس شہر کے قدیمی حصے تک رسائی پانچ بڑے دروازوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور یہاں زیادہ تر اُورومو نسل آباد ہے۔ سن دو ہزار چھ سے یہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
مسلمان زائرین کی منزل
اس شہر میں بیاسی چھوٹی بڑی مساجد کے علاوہ ایک سو سے زائد مزار بھی ہیں۔ جامع مسجد اس کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد ہے۔ ایتھوپیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک مسجد خواتین کے لیے
جامع مسجد وہ واحد مسجد ہے، جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لیے مسجد کی دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ رکھا گیا ہے۔ لیکن خواتین مسجد کے صحن یا بیرونی حدود میں بھی نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
امن کا شہر
قدیم شہر کی دیواروں کے اندر دو چرچ بھی واقع ہیں۔ میدان علم چرچ یہاں کا واحد آرتھوڈکس چرچ ہے۔ ہرار کے باشندوں کو یہاں قائم مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہاں زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ مسائل سامنے آئے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
تصوف کے ذریعے پاکیزگی
ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد آبادی والے اس شہر کو یہاں کی صوفیانہ تعلیمات منفرد بناتی ہیں۔ سب سے مقدس مزار شیخ ابادر کا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا شمار اس شہر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر ایسے مریدین کا بھی ہجوم رہتا ہے، جو نشے آور قات نامی پودے کے پتے چباتے رہتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
قات کے پتے
شروع میں قات کے پتوں کو صرف روحانی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایتھوپیا بھر میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ہرار کا مضافاتی علاقہ اب بھی ان پتوں کی تجارت اور استعمال کا مرکز ہے۔ علاقے کی ستر فیصد زراعت اسی پر مشتمل ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان پتوں کا استعمال کرتی ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
کپڑوں کی خریداری
ہرار کی معیشت کپڑوں کی صنعت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کے مرکزی بازار کو ’مکینا گِر گِر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام یہاں جگہ جگہ رکھی ہوئی سلائی مشینوں کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ لوگ یہاں سے ہی کپڑے خریدتے ہیں اور انہیں یہاں بیٹھے ہوئے درزیوں کو ہی سینے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
سات دن ہی مارکیٹ کھلی ہے
بازاروں میں صبح صبح ہی ہجوم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے مضافات سے بھی اُورومو نسل کے لوگ اپنے اشیاء بیچنے کے لیے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک گدھوں کے ذریعے کئی گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں اسمگلر مارکیٹ، مسلم مارکیٹ، تازہ سبزی مارکیٹ اور مصالہ مارکیٹ سب سے مشہور ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
اونٹوں کی مارکیٹ
ہرار سے چالیس کلومیٹر دور اونٹوں کی مشہور مارکیٹ واقع ہے۔ یہ ایک ہفتے میں دو مرتبہ لگتی ہے۔ صرف ایک صبح میں دو سو سے زائد اونٹ فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر صومالیہ کے گلہ بان تاجر ہوتے ہیں۔ اونٹ سفر اور خوراک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔