1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

ایتھوپیا کی موبائل اونٹ لائبریریاں

11 نومبر 2020

افریقی ملک ایتھوپیا کے دور دراز کے علاقوں میں بچوں کو جبری مشقت سے بچانے اور ان کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کے لیے موبائل اونٹ لائبریریوں کا انوکھا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

Flash-Galerie Kamel Büchertransport
تصویر: AP

ایتھوپیا نے کوورنا وائرس کی وجہ سے مارچ میں اسکول بند کر دیے تھے اور اس کے نتیجے میں تقریبا چھبیس ملین بچے گھروں میں بیٹھ گئے تھے۔ علاوہ ازیں اس ملک کے دیہی علاقوں میں پہلے ہی بچوں کو جبری مشقت اور کم عمری کی شادیوں کا خطرہ رہتا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے اور بچوں کو کسی نہ کسی طرح تعلیم سے منسلک رکھنے کے لیے اس ملک کے مشرقی صومالی علاقے میں بیس سے زائد اونٹ وقف کیے گئے ہیں۔ ان اونٹوں پر کتابوں سے بھرے لکڑی کے صندوق رکھے جاتے ہیں، جو دور دراز کے دیہات میں جا کر بچوں میں کتابیں تقسیم کر رہے ہیں۔ اس طرح ہزاروں بچوں کو کہانیوں پر مبنی کتابیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

یہ پاکستان کی پہلی اسٹریٹ لائبریری ہے
بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم 'سیو دا چلڈرن‘ کے ملکی ڈائریکٹر ایکن اوگوتوگولاری کا کہنا تھا، ''یہ بہت بڑا بحران ہے لیکن ہم پرعزم ہیں کہ کورونا کے دنوں میں جہاں تک ہو سکے مالی لحاظ سے کمزور بچوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔‘‘
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ اسکولوں میں نہ جانے والے بچے کسی نہ کسی طرح پڑھنا لکھنا جاری رکھیں۔‘‘ اس تنظیم نے موبائل اونٹ لائبریریوں کے منصوبے کا آغاز افریقی دیہی علاقوں میں دس برس پہلے کیا تھا لیکن کورونا وبا کے آغاز سے ایتھوپیا کے اس علاقے میں تینتیس سے زائد دیہات میں بائیس ہزار سے زائد بچوں کی مدد کی جا چکی ہے۔
اس منصوبے کے تحت مقامی رضاکار بچوں کی کتابیں اونٹوں پر لاد کر گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور وہاں خیمے لگا کر کم از کم تین دن قیام کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس دوران بچے کتابیں وہاں بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں یا پھر اپنے گھروں میں بھی لے جا سکتے ہیں، جو انہیں ایک ہفتے بعد واپس کرنا ہوتی ہیں۔
ایتھوپیا کے صومالی خطے کو پہلے ہی خشک سالی، خوراکی کی کمی اور متعدی وباؤں جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ایتھوپیا میں پانچ سے سترہ برس کی درمیانی عمر کے تقریبا سولہ ملین بچوں کو جبری مشقت کا سامنا ہے۔ ایسے میں متعدد نجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے بچوں کو کسی نہ کسی طریقے سے پڑھائی لکھائی کے ساتھ منسلک رکھنے میں کوشاں ہیں۔
ا ا / ع ح (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں