کہا جاتا ہے کہ مادہ پرست پاکستانی معاشرے میں عبدالستار ایدھی نجم الثاقب تھے۔ آج اس عظیم شخصیت کی دوسری برسی منائی جا رہی ہے۔ ایدھی آٹھ جولائی سن 2016 میں انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
اشتہار
پاکستان کے مالیاتی مرکز کا مقام رکھنے والے شہر کراچی کے مصروف شب و روز میں یوں تو کئی افراد اور معاملات اہم رہے ہیں لیکن ایک شخص اس شہر کی مصروف زندگی کا اہم ترین جزوِ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ یہ شخصیت عبدالستار ایدھی تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایدھی مرحوم صرف کراچی ہی میں نہیں پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی صاحب اعتبار کا درجہ رکھتے تھے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی سے جڑے المیوں کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو عام پاکستانیوں کے دل و دماغ میں صرف ایک نام ابھرتا ہے اور وہ ہے عبدالستار ایدھی۔ انہی کو انسانی دکھوں کے مداوے کا استعارہ بھی خیال کیا جاتا رہا تھا۔ پاکستان کے طول و عرض میں انسانیت کی خدمت میں ایدھی صاحب نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
وہ انتہائی عام سے شخص تھے لیکن اپنی خدمات کی وجہ سے وہ اپنے قد سے کہیں زیادہ بلند اور ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔ انہوں نے رنگ و نسل سے ہٹ کر دین اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں بیمار اور شکستہ انسانی زندگی کو سہارا دینے میں اپنی مقدور بھر کوشش کی۔
عبدالستار ایدھی کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی تھیتصویر: Reuters/A. Soomro
اُن کے مراکز لاوارثوں کے لیے پناہ کے گھر بن چکے ہیں اور بیمار و لاچار افراد کا آخری سہارا خیال کیے جاتے ہیں۔ اُن کی قائم کردہ ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
برطانوی دورِ حکومت میں سن 1928 میں پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی نے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد جو خیراتی و امدادی ادارہ قائم کیا وہ دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس ادارے کو خیرات اور امداد دینا ضرورت مندوں کی امداد کرنا سمجھتی ہے۔
مرحوم ایدھی نے اپنی امدادی سرگرمیوں کی ابتدا محتاج بیمار افراد کے لیے ایک خیراتی دوا خانے سے کی تھی۔ ایسی خدمات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے جو امدادی ادارہ قائم کیا، اُس کی ایمبیولینس سروس کو شاید رضاکارانہ بنیاد پر قائم کی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی سروس تصور کیا جاتا ہے۔
عبدالستار ایدھی کو اُن کی خدمات کے احترام میں اُن کی حیات میں گاندھی امن ایوارڈ اور یونیسکو مدن جیت سنگھ پرائز سے نوازا گیا تھا۔ اُن کی رحلت پر انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔
عبدالستار ایدھی کا آخری سفر
جدید دنیا میں انسانیت کے بڑے خدمت گزار عبدالستار ایدھی کو تمام سرکاری اعزازات کے ساتھ کراچی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ زندگی بھر لوگوں کی بے لوث خدمت کرنے والے ایدھی نے اپنی آخری آرام گاہ بھی 25 برس قبل خود ہی تیار کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
مشن جاری رہے گا
والدہ کی بیماری سے دکھی انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھانے والے ایدھی نے بغیر کسی وقفہ کے ساٹھ برس تک نہ صرف زندہ انسانوں کوسہارادیا بلکہ بے گور کفن لاشوں کو بھی وارث بن کر قبر میں اتارا۔
تصویر: Imago/UIG
لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر
ایک ایسا ملک جس کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کی وجہ عدم رواداری اور انتہا پسندی بن گئی ہے، وہاں عبدالستار ایدھی انسانیت اور سکیولر اقدار کا ایک مجسم پیکر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنے ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کے لیے وقف کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
ایدھی نے فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی
اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن نامی تنظیم چھ دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کر سکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلا شبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔ ان کی موت پر پاکستان بھر اداس ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین
ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، اور لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ پاکستان میں ایک مثال زبان زد عام رہی ہے کہ حکومت کی سروس سے پہلے ہی ایدھی کی ایمبولنسیں متاثرہ افراد تک پہنچ جاتی ہیں۔ ایدھی کو باقاعدہ سرکاری اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
فوجی آمریتوں کے مخالف
ایدھی بڑی حد تک ایک غیر سیاسی شخص تھے، تاہم بعض انٹرویوز میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اشتراکیت سے متاثر تھے۔ وہ یقینی طور پر مذہبی و فرقہ وارانہ سیاست اور فوجی آمریتوں کے مخالف تھے۔ ان کی نماز جنازہ میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شریک ہوئے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں کی شرکت
آج ایدھی ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے اہل خانہ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکنان ان کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اس بات کو یقینی بنا دیا تھا کہ وہ اپنے پیچھے ایک ادارہ چھوڑ جائیں جو ان کے بعد بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا رہے۔ ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
چراغ جلتے رہیں گے
سن دو ہزار تیرہ میں گردوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود ایدھی صاحب نے انسانی خدمت کے مشن کو جاری رکھا۔ ان کے انتقال پر کئی عالمی رہنماؤں نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔