جہاں پاکستان کی ریاست اور حکومتیں عوام کی جانب اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوئیں، وہاں فلاحی کارکن عبدالستار ایدھی نے چھ دہائیوں تک لوگوں کی خدمت کر کے اس خلا کو پُر کیا۔ ڈی ڈبلیو کی کشور مصطفیٰ کا تبصرہ۔
اشتہار
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں شہری اور عسکری بیوروکریسی انتہائی وسیع ہے۔ ملک میں بے شمار سرکاری شعبے ہیں، وزارتیں ہیں اور لاتعداد وزیر بھی ہیں۔ پاکستان کے سن انیس سو سینتالیس میں انگریز حکم رانوں سے آزادی کے باوجود اب تک ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔
'پاکستان کے مدر ٹیریسا‘ کہلائے جانے والے عبدالستار ایدھی نہ سیاست دان تھے اور نہ ہی امیر بزنس مین، مگر عوامی فلاح و بہبود کے لیے ان کی لگن اور ان تھک محنت نے پاکستان کے غریب افراد کو وہ کچھ دیا جو ریاست نہ دے سکی۔
جب ایدھی کو یہ اندازہ ہوا کہ ریاست اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی تو انہوں نے اپنے طور پر عوام کی فلاح کا بیڑا اٹھا لیا اور ایدھی فاؤنڈیشن کو قائم کیا۔ ابتدا میں یہ صرف لوگوں کو عارضی مدد فراہم کرنے والا ادارہ تھا، تاہم جب پاکستان میں انیس سو اسی اور انیسی سو نوے کی دہائیوں میں سکیورٹی کی حالت ابتر ہوتی گئی تو ایدھی نے اپنے مشن کو وسیع کرتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کی بھی مدد کرنا شروع کی۔
ایدھی ایک بہت مشکل کام حکومت کی کسی بھی مدد کے بغیر کر رہے تھے۔ اور انہوں نے یہ کام اس قدر عاجزی اور سنجیدگی کے ساتھ کیا کہ پاکستان کے عوام نے اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی سادگی سے گزاری اور اپنی زندگی میں ہی ان کو ایک ’درویش‘ کا درجہ حاصل ہو گیا۔
آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس جنوبی ایشیا میں ایمبولینسوں کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ وہ ’عوامی باورچی خانے‘ بھی چلاتی ہے جہاں سے ہر روز ہزاروں بھوکے افراد کو کھانا ملتا ہے۔ ایدھی کا فلاحی ادارہ ’دارالاطفال‘ بھی چلاتا ہے، جہاں وہ بچے لائے جاتے ہیں جن کا کوئی کفیل نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایدھی فاؤنڈیشن گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے درالامان بھی چلاتی ہے۔
عبدالستار ایدھی کی زندگی، ان کی جدوجہد اور ان کا فلسفہء حیات ان لوگوں کو متاثر کرتا رہے گا جو انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی وراثت ثابت کرتی ہے کہ انسانیت کسی بھی قومی، لسانی اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں غریب افراد ایدھی صاحب کے بنائے ان اداروں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
اس عظیم فلاحی کارکن کو نو جولائی کو پاکستانی ریاست کی جانب سے پورے اعزازات کے ساتھ دفنا دیا گیا۔ فوجی اور سویلین قیادت نے ایدھی کی سماج کے لیے خدمات پر انہیں سیلوٹ بھی پیش کیا۔ تاہم ایدھی کو کسی ریاستی اعزاز کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کی جدوجہد اس بات کو ظاہر کرتی تھی کہ ریاستی رہنما اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے تھے۔ جو محبت اور عزت انہیں پاکستان کے عوام سے ملی وہی ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز تھا۔
عبدالستار ایدھی کا آخری سفر
جدید دنیا میں انسانیت کے بڑے خدمت گزار عبدالستار ایدھی کو تمام سرکاری اعزازات کے ساتھ کراچی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ زندگی بھر لوگوں کی بے لوث خدمت کرنے والے ایدھی نے اپنی آخری آرام گاہ بھی 25 برس قبل خود ہی تیار کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
مشن جاری رہے گا
والدہ کی بیماری سے دکھی انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھانے والے ایدھی نے بغیر کسی وقفہ کے ساٹھ برس تک نہ صرف زندہ انسانوں کوسہارادیا بلکہ بے گور کفن لاشوں کو بھی وارث بن کر قبر میں اتارا۔
تصویر: Imago/UIG
لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر
ایک ایسا ملک جس کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کی وجہ عدم رواداری اور انتہا پسندی بن گئی ہے، وہاں عبدالستار ایدھی انسانیت اور سکیولر اقدار کا ایک مجسم پیکر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنے ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کے لیے وقف کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
ایدھی نے فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی
اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن نامی تنظیم چھ دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کر سکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلا شبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔ ان کی موت پر پاکستان بھر اداس ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین
ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، اور لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ پاکستان میں ایک مثال زبان زد عام رہی ہے کہ حکومت کی سروس سے پہلے ہی ایدھی کی ایمبولنسیں متاثرہ افراد تک پہنچ جاتی ہیں۔ ایدھی کو باقاعدہ سرکاری اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
فوجی آمریتوں کے مخالف
ایدھی بڑی حد تک ایک غیر سیاسی شخص تھے، تاہم بعض انٹرویوز میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اشتراکیت سے متاثر تھے۔ وہ یقینی طور پر مذہبی و فرقہ وارانہ سیاست اور فوجی آمریتوں کے مخالف تھے۔ ان کی نماز جنازہ میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شریک ہوئے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں کی شرکت
آج ایدھی ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے اہل خانہ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکنان ان کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اس بات کو یقینی بنا دیا تھا کہ وہ اپنے پیچھے ایک ادارہ چھوڑ جائیں جو ان کے بعد بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا رہے۔ ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
چراغ جلتے رہیں گے
سن دو ہزار تیرہ میں گردوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود ایدھی صاحب نے انسانی خدمت کے مشن کو جاری رکھا۔ ان کے انتقال پر کئی عالمی رہنماؤں نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔