بلوچستان کے علاقے مستونگ سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت مجسمہ ساز اسحاق لہڑی عبدالستار ایدھی کا 120 فٹ طویل مجسمہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو پاکستان کا سب سے بڑا مجسمہ ہو گا۔
اشتہار
مجسمہ سازی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ ماہرین ِ آثارِ قدیمہ کے مطابق پتھر کے زمانے یعنی 35 ہزار سے 40 ہزار سال پہلے ہاتھی دانت سے بنے ایک مجسمے کو دنیا کا قدیم ترین مجسمہ کہا جاتا ہے۔ اسے 1939ء میں جرمنی کے ہولنشٹائن شٹاڈل کے غار سے دریافت کیا گیا تھا۔ یعنی مجسمہ سازی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تہذیب۔ خیال ہے کہ پہلے پہل یہ مجسمے صرف پوجا یا عبادت کے لیے استعمال کیے جاتے تھے مگر پھر رفتہ رفتہ ان کی تیاری فن کی صورت اختیار کرتی گئی۔
پاکستان میں مجسمہ سازی کو جلا بخشنے والے اہم نام منصور زبیری، عمران مشتاق اور فقیرہ فقیرو ہیں جن کے کام کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہوئی۔ بلوچستان میں اسے فن کی حیثیت سے جمال شاہ نے متعارف کروایا ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح آرٹ میں بھی بلوچستان کا بہت سا ٹیلنٹ ابھی دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ انہی میں سے ایک نام اسحاق لہڑی بھی ہیں جن کا تعلق مستونگ سے ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ گزشتہ 20 برس سے پی ٹی وی کوئٹہ سے بطور ِ ڈیزائنر وابستہ ہیں۔
اسحاق لہڑی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا بچپن سبی میں گزرا جہاں کی مٹی بہت چکنی ہے، وہ اس سے مختلف چیزیں بنایا کرتے تھے: ''اکثر سبی میلے میں جب میں اونٹ، گھوڑے، ہاتھی وغیرہ کو قریب سے دیکھتا تھا تو گھر آکر مٹی سے ویسے ہی مجسمے بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ یونیورسٹی آف بلوچستان سے میں نے فائن آرٹس کیا جس میں میرا میجر مجسمہ سا زی تھا۔ مگر 2000 میں پی ٹی وی کوئٹہ سے منسلک ہونے کے بعد میں اپنے اس شوق کو وقت نہیں دے سکا۔ اب 15 سال کے وقفے کے بعد میں نے دوبارہ کام کا آغاز کیا اور اب تک جو مجسمے میں نے بنائے ہیں وہ کوئٹہ میں مختلف مقا مات پر لگے ہوئے ہیں جبکہ کچھ مجسمے دبئی بھی منگوائے گئے ہیں۔‘‘
عبدالستار ایدھی کا 120 فٹ بلند مجسمہ بنائے کی خواہش
اسحاق لہڑی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''جب میں نے پی ٹی وی میں جاب شروع کی تو کئی برس تک میں اپنے اس شوق کے لیے بالکل وقت نہیں نکال سکا۔ ابھی یہی کوئی چھ سال پہلے میں نے دوبارہ کام کا آغاز کیا ہے اور اب تک متعدد چوپایوں، جن میں اونٹ اور گھوڑے کے مجسمے قابل ِ ذکر ہیں بنا چکا ہوں اور عبدالستار ایدھی، بلوچستان کی ایک قد آور شخصیت میر راشد بزنجو اور کئی دیگر شخصیات کے مجسمے بھی میں نے بنائے ہیں۔ لیکن میری شدید خواہش ہے کہ معروف سماجی کارکن عبد الستار ایدھی مرحوم کا ایک 120 فٹ کا مجسمہ بناؤں جو دنیا کا چٹھا اور پاکستان کا سب سے بڑا مجسمہ ہو گا۔ یہ میرا اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین ہوگا کیونکہ ایدھی صاحب نے مجھے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے۔ جبکہ مجسمہ سازی میں میرے آئیڈیل معروف مجسمہ ساز فقیرا فقیرو ہیں جنھیں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا ہے۔‘‘
ایک مجسمے کی تیاری میں اسحاق لہڑی کو ایک سے تین ماہ کا عرصہ لگتا ہے جس کا انحصار مجسمے کے سائز پر ہوتا ہے: ''اس کی تیاری کے مراحل مختلف ہوتے ہیں، فائبر گلاس میں مجسمہ بنانے کے لیے پہلے آرمیچر اور جالی لگا کر مٹی سے مجسمہ بنایا جاتا ہے اور پھر پلاسٹر یا ربڑ سے مولڈ نکالا جاتا ہے جس کے بعد فائبر سے اس کی کاسٹ نکالتے ہیں۔‘‘
اپنا فن آئندہ نسل کو منتقل کرنے کے لیے تربیتی ادارہ بنانے کا ارادہ
اسحق لہڑی اپنے فن کو آج کی نوجوان نسل میں منتقل کرنے کے لیے ایک باقاعدہ تربیتی ادارہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر فی الوقت ملازمت اور مناسب جگہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک وہ کرائے پر جگہ لے کر وہاں مجسمے تیار کیا کرتے تھے مگر اب انھوں نے اپنے گھر کے لان میں ہی ایک چھوٹا سا چھپر ڈال کر کام کا دوبارہ آغاز کیا ہے۔
اگر بلوچستان کے اس با صلاحیت مجسمہ ساز کو مناسب وسائل اور ما لی مدد فراہم کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ نا صرف ان کے اپنے تیار کردہ مجسمے بین الاقوامی پزیرائی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان کی تربیت سے بلوچستان کا بہت سے ایسا ٹیلنٹ سامنے آ سکتا ہے جو فی الوقت مناسب تربیت کی کمی اور دیگر مسائل کے باعث دنیا کی نظر سے پوشیدہ ہے۔
پاکستان کے سارے رنگ لوک ورثہ کے ایک میلے میں
پاکستانی دارالحکومت میں لوک ورثہ کے زیر اہتمام ان دنوں ایک ایسا کئی روزہ سالانہ قومی میلہ جاری ہے، جس میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے فنکار اور ماہر دستکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پانچ سو سے زائد فنکار اور دستکار
سات اپریل کو شروع ہونے والا یہ دس روزہ قومی لوک میلہ سولہ اپریل کو اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ اس میلے میں پاکستان کے مختلف صوبوں اور خطوں کی ثقافت کے نمائندہ پانچ سو سے زائد فنکار، لوک گلوکار اور دستکار حصہ لے رہے ہیں۔ اس تصویر میں ایک سندھی لوک گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ پس منظر میں پاکستان کے مشہور لوک فنکاروں کی تصاویر والی ایک بہت بڑی ڈرائنگ دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پتلی تماشہ
اس تصویر میں ایک خاتون ڈھولک کی تھاپ پر روایتی پتلی تماشے کے لیے ماحول پیدا کر رہی ہے۔ بڑی تعداد میں اس میلے کو دیکھنے کے لیے آنے والے مہمانوں کی خاطر ہر روز ایسی درجنوں نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن سے شرکاء پاکستانی ثقافت کے متنوع رنگوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ڈھول کی تھاپ پر دھمال
لوک ورثہ کمپلیکس میں بہت سے اسٹالوں کے عین درمیان میں سندھ سے آئے ہوئے لوک فنکار شائقین کے ایک ہجوم میں گھرے ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتے ہوئے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دستکاری کے رنگا رنگ نمونے
اس لوک ورثہ میلے میں ہر قسم کی رنگا رنگ دستکاریوں سے بھرا یہ اسٹال صوبہ خیبر پختونخوا کے دستکاروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس میں کڑھائی، چھوٹے چھوٹے موتیوں اور شیشوں سے مزین بہت سی مصنوعات دیکھی جا سکتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساگ اور مکئی کی روٹی
بہاولنگر سے تعلق رکھنے والی رقیہ بٹ نے بتایا کہ انہیں اسلام آباد آئے ہوئے سولہ سال ہو گئے ہیں۔ وہ پہلے صرف یہاں سالانہ میلے کے موقع پر ہی اسٹال لگانے آتی تھی لیکن پھر روزگارکی تلاش نے انہیں اسلام آباد میں مستقل رہائش کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ رقیہ بٹ نے بتایا کہ لوگ بڑے شوق سے ان کی مکئی کی روٹی اور ساگ کھاتے ہیں اور صبح دس بجے سے لے کر رات دس بجے تک وہ اپنے اسٹال پر بہت مصروف رہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
آپ کے سامنے بنتے ہوئے مٹی کے دیے
صوبہ پنجاب کی پویلین میں ایک اسٹال پر موجود یہ دستکار وہاں موجود شائقین کے سامنے بڑی مہارت سے اپنے ہاتھوں سے مٹی کے دیے اور چھوٹے چھوٹے گلدان بنا رہا تھا اور دیکھنے والے حیران ہو رہے تھے کہ کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے گیلی مٹی مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہے، محض کسی ماہر دستکار کی انگلیوں کے لمس کے باعث۔
تصویر: DW/I. Jabeen
روایتی ’اندرسے‘
لوک میلہ پورے پاکستان کا ہو اور اس میں مختلف خطوں کے روایتی کھانوں اور مٹھائیوں کے اسٹال نہ ہوں، یہ ممکن نہیں۔ اس تصویر میں وہ گرما گرم روایتی ’اندرسے‘ تیار کیے جا رہے ہیں، جو خاص طور پر پنجاب کے دیہی علاقوں میں عوامی میلوں کے موقع پر بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
آرٹ رنگوں کی زبان ہے
ٹرک آرٹ کہلانے والا یہ فن نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ یورپ میں برطانیہ تک بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اس فن کے ماہر دستکار اپنے علاقوں کے حقائق کو دوسرے خطوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس تصویر میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والا ایک بزرگ فنکار ایک بڑے گلدان پر ٹرک آرٹ بنا رہا ہے۔ قریب پڑی کئی ہانڈیوں اور کرکٹ کے کئی بلوں پر بھی یہی آرٹ بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ہاتھ سے بنائی گئی جیولری گاہکوں میں مقبول
لاہور میں شالامار باغ کے علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون شہزادی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں لوک ورثہ کے اس سالانہ میلے میں اسٹال لگاتے کئی برس ہو گئے ہیں اور لوگ ہاتھ سے بنائی گئی جیولری بہت پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے لوک ورثہ میں ایک اسٹال چھ ہزار روپے ماہانہ پر مستقل کرائے پر لے رکھا ہے، جس سے انہیں اتنا منافع ہو جاتا ہے کہ ان کا اور ان کے اہل خانہ کا گزارہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
چمڑے کے روایتی سینڈل
اس دکان پر بے شمار ڈیزائیوں میں ہاتھ سے بنائے گئے اور چمڑے پر کڑھائی والے وہ بہت سے چپل دیکھے جا سکتے ہیں، جو گرمیوں میں مردوں اور خواتین دونوں میں برابر مقبول ہوتے ہیں۔ اس سٹال پر موجود ایک سیلز مین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ویک اینڈ پر مہمانوں کا رش بہت زیادہ تھا اور آئندہ گرمیوں کے موسم کے پیش نظر عام لوگوں نے ایسے سینڈل بڑی تعداد میں خریدے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گلگت بلتستان، پاکستان کا موتی
اس میلے میں صوبے گلگت بلتستان کا بھی اپنا ایک پویلین ہے، جہاں اس صوبے کے مختلف علاقوں کی طرف سے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ اس تصویر میں گلگت بلتستان کے ضلع گھانچے کی نمائندگی کرنے والی ایک خاتون مقامی طور پر قیمتی پتھروں اور موتیوں سے تیار کردہ رنگ برنگ زیورات کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
منفرد وادی ہنزہ
پاکستان کے شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں ہنزہ کی وادی ایک ایسا خوبصورت علاقہ ہے، جہاں کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پورے پاکستان میں اوسطا سب سے طویل العمر ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں خواتین کے خوبصورت ملبوسات کے علاوہ ہنزہ کا شہد اور روایتی خوشبودار مصالحے اور جڑی بوٹیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ہر ڈیزائن کا کھسہ بنانے کا چیلنج
مسلسل بائیس برس سے اس میلے میں شرکت کرنے والے محمد رمضان عرف لالہ جی نے ایک کھسہ بناتے ہوئے بتایا کہ ان کا چیلنج ہے کہ وہ ہر طرز کا کھسہ بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے میلے کے منتظمین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر سال فنکاروں کو بلاتے ہیں، ان کے کھانے پینے اور رہائش کا مناسب انتظام کیا جاتا ہے اور یوں میلے کے مہمانوں کو ایک جگہ پر پورے پاکستان کے فنکاروں کو ملنے اور دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
لوک ورثے میں لوک موسیقی نمایاں
بات لوک ورثے کی ہو اور اس میں لوک موسیقی کو نمایاں جگہ نہ ملے، یہ تو ہو نہیں سکتا۔ اس تصویر میں لوک موسیقی کے ایک اسٹیج پر ایک فنکارہ گلوکاری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس میلے کی ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس میں شائقین کو سندھ اور بلوچستان سے لے کر پنجاب کے مختلف قصبوں اور شہروں سے آنے والے لوگ فنکاروں کی گائیکی سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل رہا ہے۔