1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی اسکولوں میں طالبات کو زہر دینے کے الزام میں گرفتاریاں

8 مارچ 2023

ایران کے اسکولوں میں طالبات کو زہر دینے کے حالیہ مسلسل واقعات کے درمیان حکام نے متعدد گرفتاریوں کا اعلان کیا ہے۔ وزارت داخلہ کا الزام ہے کہ گرفتار کیے جانے والوں میں سے بعض کے تعلقات 'مخالف غیر ملکی میڈیا' سے بھی ہیں۔

FILE PHOTO: Wave of poison attacks on schoolgirls alarms Iranians
تصویر: REUTERS

ایران نے سات مارچ منگل کے روز اعلان کیا کہ ملک کے چھ مختلف صوبوں میں اسکول کی طالبات کو زہر دینے کے واقعات کے سلسلے میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ ماجد میر احمدی نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ایرانی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے گرفتاریاں کی ہیں اور وہ اس کی ''مکمل طور پر تحقیقات کریں گے۔''

ایران، طالبات کو زہر دینے کے معاملے میں پہلی گرفتاریاں

 

گزشتہ نومبر کے اواخر میں اسکول کی طالبات کو زہر دینے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس سے اب تک ملک کے 31 صوبوں میں سے 25 میں، تقریباً 230 سکولوں کی پانچ ہزار سے زائد طالبات متاثر ہو چکی ہیں۔

وزارت داخلہ نے الزام لگایا ہے کہ گرفتار کیے گئے بعض لوگوں کا تعلق ''مخالف غیر ملکی میڈیا'' سے ہے، جبکہ کچھ لوگ 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے خلاف جاری ملک گیر مظاہروں میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ حکومت ان مظاہروں کو فسادات سے تعبیر کرتی ہے۔

ایران: لڑکیوں کے اسکولوں پر گیس حملوں میں 100 سے زائد بیمار

وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے، ''گرفتار کیے گئے چار افراد میں سے تین ارکان اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں، جن کی حالیہ فسادات میں ملوث ہونے کے ریکارڈ موجود ہیں اور ان کے غیر ملکی میڈیا سے تعلقات کے بارے میں بھی پتہ چلا ہے۔''

لڑکیاں اسکول نہ جاسکیں اس لیے انہیں زہر دیا گیا، ایرانی وزیر

وزارت داخلہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گرفتار کیے گئے افراد میں سے ایک نے اسکول زہریلا مادہ پہنچانے کے لیے اپنے ہی بچے کو استعمال کیا اور پھر اس کے بعد کی فوٹیج ''دشمن میڈیا'' کے ساتھ شیئر بھی کی۔

تاہم ملک کے بعض سیاست دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دینے کے مخالف مذہبی گروہوں نے زہر دینے کا عمل شروع کیا ہو گا۔

اسکول میں زہر دینے کے واقعات سے ایران میں حکومت مخالف جذبات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور عام لوگ اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیںتصویر: NNSRoj

زہریلے مادے کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

پیر کے روز ایرانی خبر رساں ایجنسی آئی ایس این اے سے بات کرتے ہوئے پارلیمانی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے رکن محمد حسن اسفری نے کہا تھا کہ ''زہریلے مادے کی قسم اور اس کی وجہ جاننے کے لیے مختلف طرح کے جانچ کیے جا رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک اس کی قسم کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں مل سکی ہیں۔''

اس سے متاثرہ طلبہ کو سانس لینے میں پریشانی اور متلی کی شکایت کے ساتھ ہی سر میں چکر آنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے متعدد طالبات کو ہسپتال میں بھی داخل کرانا پڑا۔

نائب وزیر صحت سعید کریمی کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ زہریلی گیس نہیں ہو سکتی، بلکہ ''ایک پاؤڈر، پیسٹ یا پھر وہ مائع مادہ ہو سکتا ہے، جسے ہیٹر پر رکھنے یا گرمی کے سبب بخارات بننے کی وجہ سے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔''

اس نوعیت کا تازہ ترین کیس منگل کو رپورٹ کیا گیا تھا، جس سے جنوب مشرقی شہر زاہدان میں اسکول کی 40 لڑکیاں متاثر ہوئی تھیں۔ یہ شہر حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت ترین قسم کے کریک ڈاؤن کا گڑھ رہا ہے۔

زہر کی وجہ سے حکومت مخالف جذبات میں اضافہ

اسکول میں زہر دینے کے واقعات سے ایران میں حکومت مخالف جذبات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور عام لوگ اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے صدر ابراہیم رئیسی نے زہر پھیلانے کے ان واقعات کو ایرانیوں میں خوف اور مایوسی پیدا کرنے کی دشمن کی ایک سازش قرار دیتے ہوئے وزارت داخلہ اور انٹیلیجنس کو مسلسل اپ ڈیٹ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

تہران کے چیف پراسیکیوٹر علی صالحی نے منگل کے روز کہا ''جھوٹ اور افواہیں پھیلانے والوں کے ساتھ قانونی طور پر فیصلہ کن انداز سے  نمٹا جائے گا۔''

صالحی کا مزید کہنا تھا، ''گزشتہ ہفتے حمیحان، روئیداد 24 اور شارغ میڈیا گروپ کے مینیجرز کے ساتھ ہی متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔''

پیر کے روز ہی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ اس ''ناقابل معافی جرم'' کے مرتکبین  کا ''بغیر رحم کے'' شکار کیا جائے اور اگر وہ دانستہ طور پر اس کے کرنے کے قصوروار پائے جائیں تو انہیں موت کی سزا دی جائے۔

ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق گزشتہ ستمبر سے شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک تقریباً 20,000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ حکام نے احتجاج کو روکنے کی کوششوں کے تحت کم از کم 527 افراد کو موت کی سزا دی ہے۔

اوسلو میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم 'ایران ہیومن رائٹس' کا کہنا ہے کہ 109 افراد کو مظاہروں میں شامل ہونے کی وجہ سے، انہیں پھانسی کا سامنا ہے اور چار افراد کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں