النجف یونیورسٹی کے ایک موّرخ عدنان ملہیم کے مطابق ایرانی انقلاب عرب خطے میں شدت پسند تنظیموں کی حوصلہ افزائی اور ان کے پروان چڑھنے کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔ ان کے بقول یہ انقلاب خطے کی سیاسی سوچ پر بھی اثر انداز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Zarzycka
اشتہار
ایران میں اسلامی انقلاب سے متاثر ہونے والے مصری فوج کے ایک لیفٹیننٹ نے ایک پریڈ کے دوران صدر انور السادات کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ 1981ء کا ہے۔ اس لیفٹیننٹ نے ایک ایسے رہنما کو قتل کیا، جس نے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کیا تھا اور اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کو پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
انور السادات کو ایک سنی شدت پسند تنظیم کے خالد الاسلامبولی اور اس کے ساتھی عسکریت پسندوں نے قتل کیا تھا اور یہ قتل اس بات کا ثبوت تھا کہ شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران میں مذہبی انقلاب نے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو کہاں کہاں تک متاثر کیا تھا۔
تصویر: Theresa Tropper
مذہبی شدت پسندوں نے ایرانی انقلاب کو مشرق وسطیٰ میں مضبوط عرب قوم پرستی کا راستہ روکنے کی کوششوں کے آغاز کے طور پر دیکھا تھا۔ تاہم 2003ء میں عراق پر امریکی حملے، شام میں سالوں سے جاری خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کی وجہ سے ہونے والی فرقہ ورانہ خونریزی نے اس تقسیم کو اور بھی بھڑکایا۔
ایسا لگتا ہے مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے ہی سنی اور شیعہ اسلام کے مابین تقسیم تھا۔ ایرانی انقلاب سے بہت پہلے ہی مسلم شدت پسند قووتیں اپنی حکومتوں کو اپنے اپنے عقائد کے تابع بنانا چاہتی تھیں۔ اس کی مثال مصر میں اخوان المسلون ہے، جو 1928ء میں قائم ہوئی تھی اور فوراً ہی عرب دنیا میں پھیل گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دوسری مثال شیعہ شدت پسند تنظیم ’ فدائیان اسلام‘ کی ہے، جنہوں نے مغرب نواز ایرانی وزیراعظم حاجی علی رزماآرا کو1951ء میں قتل کیا تھا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ انتھونی کالج کے محقق ٹوبی میتھہائسن کے مطابق، ’’ایرانی انقلاب نے ابتداء میں خود کو اس طرح سے پیش کیا کہ جیسے وہ اسلامی دنیا میں ایک انقلاب کی شروعات ہو۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سی سنی تحریکوں کا بھی اس بارے میں یہی موقف تھا۔ میتھہائسن سنی شیعہ تعلقات پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔
آیت اللہ خمینی نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی لڑائی کو بھی سراہا تھا۔ جواب میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے خمینی سے ملاقات کی اور وہ خمینی سے ملنے والے پہلے رہنما تھے۔
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
10 تصاویر1 | 10
عرفات کو فلسطینی سنیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت بھی حاصل تھی۔ حماس کے بانیوں میں سے ایک احمد یوسف کے بقول، ’’ایرانی انقلاب نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ مطلق العنان اور طاقت ور حکمرانوں کا تختہ بھی الٹا جا سکتا ہے۔‘‘
مصری صدر انور السادات کے قاتل الاسلامبولی کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، عدالتی کارروائی کے دوران اس نے قرآن ہاتھ میں اٹھا کر چیخ کر کہا تھا، ’’وہ میں ہی تھا، جس نے فرعون کو قتل کیا۔‘‘ ایران نے الاسلامبولی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تہران میں ایک شاہرہ اس کے نام سے منسوب کی جبکہ ایک اعزازی ٹکٹ بھی جاری کیا۔
عراق میں امریکی مداخلت کے بعد خطے میں فرقہ واریت میں شدید اضافہ ہوا۔ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ شدت پسندوں نے امریکی دستوں کو نشانہ بنایا اور سنیوں پر حملے کیے۔ رد عمل میں سنی شدت پسندوں نے شیعہ آبادی کو نہیں بخشا۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔
تصویر: facebook/my stealthy freedom
10 تصاویر1 | 10
2014ء میں شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے عروج کے دور میں اس تنظیم نے شیعہ اور دیگر اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اس موقع پر ایران نے ایک مرتبہ پھر دخل اندازی کرتے ہوئے شیعہ جنگجو گروپوں کو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مضبوط کیا۔
فلسطینی موّرخ عدنان ملہیم کہتے ہیں، ’’جہاں تک ظلم و ستم اور بدعنوانی کے خلاف مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی بات ہے تو اس تناظر میں ایرانی انقلاب نے مشرق وسطیٰ کے خطے کے لوگوں کی سیاسی سوچ کو ضرور متاثر کیا ہے۔‘‘