عراقی دارالحکومت بغداد میں ایران اور سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک کے پارلیمانی وفود نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں عراق کے ہم سایہ ممالک مدعو تھے۔
اشتہار
عراق کے ہم سایہ ممالک کے پارلیمانی وفود کی اس کانفرنس میں سعودی عرب اور ایران نے عراق کے استحکام اور امن کے لیے بھرپور مدد کا عندیہ دیا۔ عراق کا ایک بڑا حصہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں آ گیا تھا، جسے بعد میں عراقی فورسز نے امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کے تعاون سے دوبارہ حاصل کیا۔
بغداد میں عراق کے ہم سایہ ممالک کے پارلیمانی وفود کے اس اجلاس میں ایران، اردن، کویت، سعودی عرب اور شام شامل تھے۔ ہفتے کے روز ہونے والی اس کانفرنس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عراق کے ہم سایہ ممالک کے پارلیمانی سربراہان عراق میں استحکام اور سالمیت کے علاوہ سماجی اتحاد کے لیے بھرپور معاونت فراہم کریں گے۔
یہ بات اہم ہے کہ اب سے قریب ایک برس قبل عراق نے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف مکمل فتح کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ علاقائی سلامتی کے لیے عراق میں استحکام نہایت ضروری ہے۔
دسمبر 2017 میں تب کے عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ملک بھر میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف مکمل کامیابی کا اعلان کیا تھا۔ ملک بھر سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خاتمے میں بغداد حکومت کو تین برس سے زائد عرصہ لگا تھا۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے اب بھی عراق کے مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملے دکھائی دیتے ہیں اور اس تنظیم کے جہادی مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ عام شہریوں کے اغوا میں ملوث ہیں، تاہم باقاعدہ طور پر عراق کا کوئی علاقہ اس جہادی تنظیم کے قبضے میں نہیں ہے۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
عراق شیعہ اکثریتی ملک ہے، جو خطے کے دو طاقت ور ممالک ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کا خواہش مند ہے۔ سن 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے نتجے میں صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایران نے عراق میں اپنے اثرورسوخ میں خاصا اضافہ کیا ہے جب کہ شام اور یمن میں ایران اور سعودی عرب متحارب فریقوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عراقی حکومت کی خواہش ہے کہ ملک میں تعمیر نو کے کاموں کے لیے اسے مالی مدد بھی دستیاب ہوں، کیوں کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف بڑی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے اضافی مالیاتی بوجھ اور مختلف مقامات پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرقبضہ علاقوں میں تباہی کی وجہ سے اسے بحالی کے کاموں کے لیے سرمایے کی اشد ضرورت ہے۔