ایرانی اور عراقی سرحدی علاقے میں شدید زلزلہ، سینکڑوں ہلاک
شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
13 نومبر 2017
اتوار اور پیر کی شب آنے والے اس شدید زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت سات اعشاریہ تین نوٹ کی گئی۔ ایرانی وزارت داخلہ کے مطابق اب تک دو سو سے زائد افراد ہلاک جب کہ سترہ سو زخمی ہوئے ہیں۔
اشتہار
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق گزشتہ شب آنے والے زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.3 تھی اور اس کا مرکز عراق کے مشرقی شہر حلبجة سے اکتیس کلومیٹر دور تھا۔ ادارے کے مطابق یہ زلزلہ تیئس کلو میٹر گہرائی میں آیا۔ جیولوجیکل سروے کے مطابق اتنی شدت اور کم گہرائی میں آنے والے زلزلے عام طور پر انتہائی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔
ایرانی وزارت داخلہ نے ابتدائی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب تک دو سو سے زائد افراد ہلاک جب کہ سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جب کہ بغداد حکومت کی جانب سے فوری طور پر اس زلزلے کے بعد عراقی حدود میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے ملکی سول ڈیفنس کے ادارے کو متاثرہ علاقے میں فوری امدادی کارروائیاں شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
زلزلے کی تباہ کاریاں
پاکستان اور افغانستان میں گزشتہ روز آنے والے زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی اور اس سے سب سے زیادہ تباہی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہوئی ہے۔
تصویر: picture alliance / AP Images
پاکستانی فوج بھی مصروف عمل
پاکستانی فوج ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء بھی تقسیم کی جا رہی ہیں۔ ملکی وزیر اعظم نواز شریف بھی متاثرہ علاقوں کے دورے پر ہیں۔ فوج کی جانب سے ڈاکٹروں کی مختلف ٹیمیں بھی خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
پاکستان میں اموات
پاکستان میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے ادارے کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ سولہ سو سے زائد افراد زخمی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خطرہ موجود ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Shah
کرکٹ ٹیم سکتے میں
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر انتخاب عالم نے کہا ہے کہ گزشتہ روز آنے والے زلزلے کی خبر نے کھلاڑیوں کو پریشان کر دیا اور ٹیم کے تمام ارکان سکتے میں ہیں۔ پاکستان ٹیم نے اسی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں جیت کا جشن بھی نہیں منایا۔ اس موقع پر تمام کھلاڑیوں نے زلزلہ متاثرین کی مدد کرنے کا اعلان بھی کیا۔
تصویر: DW/T. Saeed
مالاکنڈ ڈویژن
پاکستانی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے مطابق اس قدرتی آفت کی وجہ سے پاکستان میں زیادہ تر تباہی مالاکنڈ کے پہاڑی علاقوں میں ہوئی ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں تلاش اور امداد کی فراہمی کا کام جاری ہے۔
تصویر: Reuters/H. Ali Bacha
افغانستان میں قدرے کم ہلاکتیں
افغان حکام نے ابھی تک 76 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے اور بتایا ہے کہ کئی سو افراد زخمی ہیں۔ دشوار گزار راستوں اور شدت پسندی کے خطرے کی وجہ سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ امدادی سرگرمیوں میں بھی انہی وجوہات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Karimi
چار ممالک میں زلزلہ
مشرقی افغانستان میں آنے والے اس زلزے کے جھٹکے پاکستان، بھارت، تاجکستان، کرغزستان اور ازبکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nazir
ضمنی جھٹکے
پیر کے روز 7.5 شدت کے اس زلزلے کے بعد تقریباً سات ضمنی جھٹکے بھی محسوس کیے گئے۔ امریکی جیولوجیکل سروے نے بتایا کہ ضمنی جھٹکوں کی شدت4.5 تھی۔ آج منگل کے روز بھی علی الصبح متاثرہ علاقوں میں ایک آفٹر شاک محسوس کیا گیا۔
تصویر: Reuters/H. Ali Bacha
بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی
اس زلزلے سے سب سے زیادہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے پہاڑی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے امدادی کاموں میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی اصل معلومات تک رسائی بھی ممکن نہیں ہو پا رہی۔
تصویر: Reuters
تخار میں بھگدڑ
افغان صوبے کنڑ میں تیس، تخار میں بارہ اور بدخشان میں نو افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ اس زلزلے کا مرکز بھی بدخشان کا ہی علاقہ تھا۔ تخار میں اسکول کی بارہ لڑکیاں اس وقت ہلاک ہوئی، جب زلزلے کی وجہ سے اسکول میں بھگدڑ مچ گئی۔ حکام نے بتایا ہے کہ بدخشان میں ڈیڑھ ہزار سے زائد گھر مٹی کا ڈھیر بن گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/Parwiz
بین الاقوامی امداد کی پیشکش
امریکا، ایران اور بھارت سمیت کئی ممالک نے اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کو امدادی سرگرمیوں میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ کے مطابق بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ ہنگامی امداد اور خیمے مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔
تصویر: picture alliance / AP Images
10 تصاویر1 | 10
اس زلزلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے جھٹکے سینکڑوں کلومیٹر دور عراقی دارالحکومت بغداد اور ترکی میں بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں تک بھی محسوس کیے گئے۔
سب سے زیادہ تباہی ایران کے مغربی صوبے کرمانشاہ میں ہوئی۔ ایران اور عراق کو منقسم کرنے والے زاگرس کے پہاڑی سلسلے پر واقع ایرانی اور عراقی شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
شدید زلزلے کے باعث اس علاقے کے مکینوں میں خوف و حراس پھیل گیا۔ ایرانی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی تصاویر اور ویڈیو میں زلزلے کے فوری بعد ہونے والی تباہی کے مناظر دیکھے گئے ہیں۔ ابتدائی زلزلے کے بعد پچاس سے زیادہ آفٹر شاکس آ چکے ہیں۔
ایرانی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق امدادی کارروائیوں کا سلسلہ رات میں ہی شروع کر دیا گیا تھا جب کہ آج دن کے وقت مزید امدادی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ جائیں گی۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اس شدید زلزلے سے ایران کے چودہ صوبے متاثر ہوئے ہیں۔
چار سال پہلے ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہونے والے جاپان میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پیشگی حفاظتی تدابیر پر بات کی جا رہی ہے کیونکہ مؤثر انتباہی نظاموں کے باوجود اکثر یہ انتباہ بہت تاخیر سے متاثرین تک پہنچ پاتا ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
پاکستان میں آنے والا شدید سیلاب
29 جولائی 2010ء کو دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے بہت سے مکانات تباہ کر دیے یا پھر پانی کی منہ زور لہریں اُنہیں بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شمالی پاکستان کے اس خطّے کے لیے یہ بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ اس خطے میں پہلے ہی زلزلوں کا بھی ڈر رہتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ یا پہلے سے خبردار کرنے والے نظام عنقا ہیں۔ پیشگی انتباہی نظام امدادی تنظیمیں نصب کر رہی ہیں جبکہ سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
فلپائن میں ہائیون نامی طوفان کی تباہ کاریاں
نومبر 2013ء میں 380 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کی حامل ہواؤں کے ساتھ ہائیون نامی طوفان فلپائن کو روندتا ہوا گزرا۔ اس ملک میں آنے والے طاقتور ترین طوفانوں میں شمار ہونے والے ہائیون کی زَد میں آ کر چھ ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلپائن کے شہریوں نے اس طوفان سے سبق سیکھتے ہوئے اب پُر خطر علاقوں میں مضبوط مکانات بنانے شروع کیے ہیں اور بر وقت انخلاء بھی اب ممکن ہو سکے گا۔
تصویر: DW/R.I. Duerr
تباہ کاری کے نتائج عشروں پر پھیلے ہوئے
مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے شدید زلزلے اور اُس کے بعد سمندر میں اُٹھنے والی سونامی لہروں کی زَد میں آ کر پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر بنے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے وسیع تر علاقے تابکاری کی زَد میں آ گئے۔ ایٹمی توانائی ترک کرنے کی بجائے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فعال ایٹمی ری ایکٹر گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
دنیا کا خطرناک ترین خطّہ
فروری 2010ء میں ایک طاقتور زلزلے نے چلی کے ساحلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے بعد حکام نے پیرو تک کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو سونامی لہروں سے خبردار کیا لیکن تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود آٹھ سو انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ چلی میں خاص طور پر زلزلوں کا ڈر رہتا ہے۔ دنیا بھر میں نوّے فیصد زلزلے اِسی خطّے میں آتے ہیں۔
تصویر: Reuters
خطرات کم ہوتے نظر نہیں آتے
بحیرہٴ کیریبین میں واقع ملک ہیٹی میں 2010ء میں ریکٹر اسکیل پر سات کی طاقت کے ایک شدید زلزلے نے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا۔ تب ہیٹی کے ایک ملین شہری بے گھر ہو گئے تھے۔ ہیٹی کے حکام آج بھی اس قابل نہیں ہیں کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں تمام متاثرین کو پیشگی خبردار کر سکیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں اس ملک میں ہر وقت زمینی تودے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: A.Shelley/Getty Images
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات؟
بارہ مئی 2008ء کو جنوبی چینی صوبے سیچوان میں ایک شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار انسان مارے گئے، جن میں وہ ہزاروں بچے بھی شامل تھے، جو زلزلے کے وقت اپنی کلاسوں میں تھے۔ زلزلے کا مرکز ایک بڑے شہر کے قریب کئی کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ بعد میں بھی وہاں مسلسل زلزلے آتے رہے۔ ماہرین کا اندازہ ہےکہ ان زلزلوں کی وجہ وہ بے پناہ دباؤ ہے، جو قریبی زی پنگ پُو ڈیم میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی بھرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: China Photos/Getty Images
میانمار میں ’نرگس‘ کے نتیجے میں سیلاب
2008ء میں مئی کی ایک قیامت خیز رات میں ’نرگس‘ نامی طوفان نے میانمار کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ سیلاب کی بلند لہروں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے۔ چونکہ فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد متاثرین تک پہنچنے نہیں دی تھی، اس لیے قدرتی آفت کے بعد بھی لوگ عرصے تک مصائب کا شکار رہے۔
تصویر: Hla Hla Htay/AFP/Getty Images
زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا
اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک زلزلے نے 30 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں 84 ہزار انسان موت کا شکار ہو گئے۔ زلزلے کے دو مزید طاقتور جھٹکوں اور طوفانی بارشوں نے متاثرین کو اَشیائے ضرورت کی فراہمی مشکل بنا دی۔ اس کے بعد امدادی تنظیموں نے پیشگی انتباہی نظام نصب کیے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
قیمتی گھنٹے ضائع کر دیے گئے
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں 9.1 قوت کے ایک زلزلے نے بلند سونامی لہروں کو جنم دیا، جنہیں انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرانا تھا۔ امریکی محققین آٹھ منٹ بعد ہی جان گئے تھے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے لیکن کئی گھنٹے بعد دو لاکھ تیس ہزار بے خبر انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2005ء میں پیشگی انتباہی نظام پر کام شروع ہو گیا لیکن بچاؤ کے انتظامات ابھی بھی ناکافی تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں صدی کا گرم ترین موسم گرما
2003ء میں یورپ کا موسم گرما غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اگست میں درجہٴ حرارت 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا، جو کہ اس براعظم کے لیے ایک ریکارڈ تھا۔ ستّر ہزار ہلاکتیں ہوئیں، بہت سے جنگلات میں آگ لگ گئی، دریا خشک ہو گئے اور کھیت ویران ہو گئے۔ موسمیاتی ماہرین کے خیال میں زمینی درجہٴ حرارت بڑھنے کی وجہ سے خشک سالی، طوفانی ہواؤں اور مسلسل بارشوں جیسے انتہائی موسم آگے چل کر ایک معمول بن سکتے ہیں۔