امریکا کی مرکزی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کے عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہوتے ہوئے سربراہ جان برینن نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ طے شدہ ایٹمی معاہدے کی منسوخی نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک فاش غلطی ہو گی۔
ڈونلڈ ٹرمپتصویر: Reuters/C. Allegri
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے بدھ تیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اپنی انتخابی کامیابی سے قبل رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ وہ منتخب ہو کر ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے کی دستاویز ہی پھاڑ دیں گے۔
امریکا کا اگلا صدر منتخب ہو جانے کے بعد ٹرمپ کے بیانات میں اگرچہ کچھ احتیاط پسندی دیکھنے میں آ رہی ہے تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئی۔
جان بریننتصویر: Getty Images
اس حوالے سے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے کہا ہے کہ واشنگٹن کے تہران کے ساتھ معاہدے کی کسی دستاویز کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ’ بہت بڑی غلطی‘ ہو گی۔
برینن نے کہا کہ اس طرح یہ امکان اور زیادہ ہو جائے گا کہ ایران اور دیگر ممالک اپنے لیے جوہری ہتھیار حاصل کر سکیں گے۔
جان برینن نے برطانوی نشریاتی ادارے کے دیے گئے اور آج بدھ کو نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’اس طرح ایران ممکنہ طور پر ہتھیاروں کا اپنا ایک نیا پروگرام شروع کر سکے گا۔ اور پھر خطے کے دوسرے ممالک بھی یہ کوشش کریں گے کہ وہ بھی ایسی ہی ایٹمی پروگرام شروع کر سکیں۔‘‘
سی آئی اے کے سربراہ نے کہا، ’’اسی وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ واشنگٹن کی طرف سے تہران کے ساتھ جوہری ڈیل کی منسوخی امریکی وائٹ ہاؤس میں اگلی انتظامیہ کا انتہائی غیر دانش مندانہ اقدام ہو گا۔‘‘
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
اپنے اس انٹرویو میں جان برینن نے یہ بھی کہا کہ شام کے خونریز تنازعے کو حل کرنے کی کاوشوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو آئندہ روس کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے ہوئے بھی بہت محتاط رہنا ہو گا۔ برینن نے امید ظاہر کی کہ ٹرمپ انتطامیہ کے دور میں واشنگٹن اور ماسکو کے باہمی تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئے گی۔
اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے برینن نے کہا، ’’نو منتخب صدر ٹرمپ اور اگلی امریکی انتظامیہ کو روس کے وعدوں کے حوالے سے بہت محتاط رہنا ہو گا۔ میری رائے میں روسی وعدوں کے نتیجے میں ہمیں وہ نتائج نہیں مل سکے، جن کی ماسکو نے یقین دہانی کرائی تھی۔‘‘
جان برینن ابھی تک سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہیں لیکن وہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ جنوری میں اس وقت اپنی موجودہ ذمے داریوں سے علیحدہ ہو جائیں گے، جب ڈیموکریٹ باراک اوباما کے دور صدارت کی دوسری مدت پوری ہو گی اور ریپبلکن ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں آ جائے گی۔