1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟

11 ستمبر 2023

سویلین انٹیلیجنس ایجنسی کی رپورٹ میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ کے لیے زمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس غیر قانونی دھندے سے قومی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

Benzinschmuggel an der Grenze zwischen Iran und Pakistan
تصویر: Instagram.com/mototourist

وزیراعظم ہاؤس میں جمع کرائی جانے والی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے انتیس سیاستدان اور نوے کے قریب سرکاری افسران ایران سے پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ تاہم کئی سیاستدان اور ریٹائرڈ سرکاری افسران اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کے بقول رپورٹ میں ان طاقت ورعناصر کا تذکرہ نہیں کیا گیا، جن کے بغیر اس طرح کا کام ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے چند افراد کا تو یہ تک کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے جسے اسمگلنگ کہا جا رہا ہے، وہ اسمگلنگ کے زمرے میں ہی نہیں آتی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں ایک ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہے۔

پاک ایران سرحد پر تربت کے علاقے میں قائم پاکستانی چیک پوسٹ تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اس رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں تقریباﹰ نو سو پچانوے پیٹرول پمپس بھی ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور یہ کہ اس غیرقانونی تجارت کی وجہ سے ملکی خزانے کو 60 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔

اسمگلنگ میں طاقت ور عناصر ملوث

سوشل میڈیا پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سخت ناقد اور سیاسی مبصر میجر ریٹائرڈ عادل راجہ کا کہنا ہے کہ پٹرول کی اسمگلنگ کے اس دھندے میں ریاست کے بااثرعناصر شامل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طاقتور حلقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اربوں روپیہ اس اسمگلنگ سے بنا رہے ہیں اور اس سے ان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ایسے ہی افراد پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے سخت تنقید کی تھی۔‘‘

بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایرانی اشیا کی اسمگلنگ پاکستان کے بارڈ گارڈز کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟‘‘

بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد بلیدی حکومت کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ یہ سرحدی تجارت اسمگلنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ تربت سے کوئٹہ جو گاڑیاں تیل  لے کرآتی ہیں، ان سے ایف سی، لیویز، کسٹم اور دوسرے حکام بھاری رشوت لیتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس میں ہر طرح کے سرکاری ادارے شامل ہیں اور وہ تقریباﹰ پانچ سے آٹھ لاکھ رشوت  فی گاڑی لیتے ہیں۔‘‘

پاک ایران سرحد پر پٹرول کی اسمگلنگ کے لیے موٹر سائیکلوں ، کاروں اور چھوٹے ٹینکرز کا استعمال کیا جاتا ہےتصویر: Instagram.com/mototourist

ایرانی ڈیزل قانونی ہے؟

جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ '' ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کئی عشروں سے چل رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت کے دوران آئی جی ایف سی نے اس نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن کا کہا۔ اب تک 50 ہزار سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں روزانہ 600 گاڑیوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ ایران سے تیل لے کر آئیں جس کے لیے باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ان کو ٹوکن جاری کیا جاتا ہے۔ 15 لاکھ لوگوں کا اب اس سے روزگار وابستہ ہے۔‘‘

جان محمد بلیدی نے سوال کیا کہ اگر یہ سب کچھ کام ڈپٹی کمشنر اور دوسرے افسران کی نگرانی میں ہو رہا ہے، تو یہ کیسے غیر قانونی ہو سکتا ہے؟

تاہم مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ممالک کے درمیان تجارت حکومتی سطح پر ہوتی ہے اور اس کی کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکسز لگتے ہیں۔ اس ڈیزل کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں۔ تو یہ کیسے قانونی ہو سکتا ہے؟‘‘

 پاکستان تحریک انصاف کے دور میں وزیر پیڑولیم  رہنے والے ندیم بابر نے ڈی ڈبلیو کو ایک مختصر سے جواب میں بتایا، '' اگر اس طرح سے کوئی تیل آ رہا ہے تو اس کی وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘

پٹرول کی غیر قانونی تجارت کی وجہ سے ملکی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہےتصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

غیر رسمی تجارت

ٹیکس امور کے ماہر اور ایف بی آر کے سابق افسر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سرحدی علاقوں میں تجارت ہوتی ہے اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں حکام غیر ضروری طور پر ڈالر کی کمی کو اس نام نہاد اسمگلنگ سے جوڑ رہے ہیں۔ یہ غیر رسمی طور پر تجارت ہے، جس کا ایف بی آر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور نہ ہی ایف بی آر کو اس حوالے سے کوئی ٹیکس ملتا ہے لیکن اس طرح کے اور دوسرے کاروبار بھی ہیں جو غیر رسمی کاروبار کی تعریف میں آتے ہیں۔‘‘

کیا اسمگلنگ روکی جا سکتی ہے؟

 عادل راجہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کو روکا گیا تو اس سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پہ بے روزگاری پھیلے گی اور وہاں پر انتشاری کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ جان محمد بلیدی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اوران کے مطابق 10 سے 15 لاکھ کے قریب لوگوں کا روزگار اسی تجارت سے وابستہ ہے، جو نہ صرف تربت میں ہوتی ہے بلکہ پنجگور، کیچ اور گوادر میں بھی ہوتی ہے۔ بلیدی نے کہا، ''ہمارے صوبے میں پہلے ہی بے روزگاری بہت ہے۔ لہذا سرحدی تجارت کو ریگولیٹ کیا جائے اور اس پہ ٹیکس لگائے جائیں۔ اس کو بند کرنا کسی طرح سے بھی دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں