ایرانی جنرل سلیمانی کی آخری رسومات میں لاکھوں افراد کی شرکت
6 جنوری 2020
ایرانی دارالحکومت تہران میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی آخری رسومات میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ان کی نماز جنازہ پڑھنے والوں میں سپریم لیڈر خامنہ ای بھی شامل تھے جبکہ تہران میں اس موقع پر آج عام تعطیل ہے۔
اشتہار
ایران کے پاسداران انقلاب کی سپاہ قدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی جمعہ تین جنوری کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک امریکی فضائی حملے میں متعدد دیگر اہم شخصیات کے ساتھ مارے گئے تھے۔ ان کی میت کے ساتھ آج پیر چھ جنوری کو تہران میں لاکھوں شہریوں نے تعزیتی مارچ کیا۔
تہران میں جنرل قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور ملکی صدر حسن روحانی نے بھی شرکت کی۔ مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق سلیمانی کی آخری رسومات میں حصہ لینے والے شہریوں کی تعداد لاکھوں میں رہی۔ سرکاری میڈیا نے یہ تعداد کئی ملین بتائی ہے۔ تہران میں آج اس موقع پر عام تعطیل تھی۔
جنرل قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ تہران یونیورسٹی کی حدود میں پڑھی گئی۔ اس موقع پر لاکھوں سوگواران میں سے ہزارہا نے جنرل سلیمانی کی تصویروں والے پورٹریٹ اٹھا رکھے تھے اور وہ ایسے سرخ پرچم بھی لہرا رہے تھے، جنہیں ایران میں 'شہداء کے رنگ‘ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
بےپناہ اثر و رسوخ کے مالک سلیمانی
جنرل قاسم سلیمانی ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر تھے اور انہیں بیرون ملک، خاص کر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔ ان کی موت کے بعد ایرانی قیادت نے فوراﹰ ہی کہہ دیا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔ اسی تناظر میں تہران میں ان کی نمازہ جنازہ میں شریک لاکھوں ایرانی شہری 'امریکا مردہ باد‘ اور 'اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
کئی روزہ تعزیتی تقریبات
جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد ان کی یاد میں ہونے والی تعزیتی تقریبات کا آغاز کل اتوار پانچ جنوری کی شام ہی جنوب مغربی ایران کے شہر اہواز سے ہو گیا تھا۔ اہواز سے ان کی میت کو سڑکوں پر نکالے جانے والے ایک بہت بڑے جلوس کے ساتھ پہلے مشہد اور پھر تہران لایا گیا تھا۔ تہران میں سلیمانی کے جنازے کے جلوس اور ان کی نماز جنازہ کی ملک کے تمام نشریاتی اداروں نے براہ راست کوریج کی۔
سلیمانی کی بیٹی کا خطاب
تہران یونیورسٹی میں آج قاسم سلیمانی کی نمازہ جنازہ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے اس ایرانی جنرل کی بیٹی زینب نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ زینب سلیمانی نے سوگواران کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''امریکا اور اسرائیل آج ایک یوم سیاہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میرے والد کی ایک شہید کے طور پر موت کے ساتھ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
جنرل سلیمانی کی تدفین ممکنہ طور پر کل منگل سات جنوری کو جنوبی ایران میں ان کے آبائی شہر کرمان میں کی جائے گی۔ کرمان میں حکومت نے کل منگل کے دن کے لیے مقامی تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے۔
آیت اللہ خمینی کےجنازے کی یاد
تہران سے متعدد خبر رساں اداروں نے بتایا ہے کہ ایرانی دارالحکومت میں آج جنرل سلیمانی کی آخری رسومات کے لیے لاکھوں کی تعداد میں جو سوگواران جمع ہوئے، انہیں دیکھ کر قریب تین عشرے پہلے کے ان واقعات کی یاد تازہ ہو گئی، جب ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی رہنما آیت اللہ خمینی کا انتقال ہوا تھا، تو بھی 1989ء میں تہران شہر اسی طرح لاکھوں سوگواروں سے بھر گیا تھا۔
م م / ع ب (اے ایف پی، ڈی پی اے)
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔