ایرانی جنریشن زی کے مسائل: کریک ڈاؤن، پابندیاں اور تنازعات
24 اکتوبر 2025
ایران میں روزمرہ زندگی میں افراط زر میں مسلسل اضافے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کم ہوتے ہوئے مواقع کے باعث ملکی نوجوانوں کو ایک مسلسل جدوجہد کا سامنا ہے۔ پورے ایران کے چھوٹے بڑے سبھی شہروں اور قصبوں میں نوجوان نسل کو ایسی تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں ان کے خواب پورے نہیں ہوتے، آوازیں خاموش کرا دی جاتی ہیں، اور مستقبل زیادہ سے زیادہ بے یقینی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔
الناز*نامی ایک نوجوان ایرانی خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے میرا آبائی شہر بہت خوبصورت ہوتا تھا، اب تو جیسے یہ بے جان ہو گیا ہے۔ میرے تمام دوست شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘ اس خاتون نے کہا، ''میری خواہش ہے کہ ہماری افراط زر اور قیمتوں میں اضافے سے متعلق پریشانی بدل کر اس طرح کی فکر بن جائے کہ ہمیں موسم گرما میں اپنی چھٹیاں اپنے ہی شہر میں گزارنا ہیں یا ایران کے کسی دوسرے شہر میں۔‘‘
ایران کو شدید معاشی بحران اور عوامی بے چینی کا خطرہ
الناز نے گزشتہ چند برس کام کرتے ہوئے اور اپنی مالیاتی خود مختاری کے حصول کی کوششوں میں گزارے۔ اس دوران انہوں نے دو مختلف ملازمتوں کے لیے پیشہ وارانہ تربیت بھی حاصل کی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں ان کے ملک میں ملازمتوں کے مواقع کم ہوئے ہیں، جس کی بڑی وجوہات ایرانی جوہری پروگرم کی وجہ سے ایران میں اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے کیے گئے حملے اور تہران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کا دوبارہ عائد کیا جانا بھی ہیں۔
ایرانی نوجوانوں کو روزگار کی تلاش میں مشکلات کا سامنا
سرکاری طور پر ایران میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح 7.6 فیصد ہے۔ لیکن اگر ایرانی لیبر مارکیٹ کی صورت حال دیکھی جائے، تو حالات کہیں زیادہ پریشان کن ہیں، خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کے لیے۔ تقریباﹰ ہر پانچ نوجوان ایرانیوں میں سے ایک بے روزگار ہے۔
دوسری طرف وہ کئی ملین ایرانی، جو برسرروزگار ہیں، انہیں بھی غربت کا شکار ہو جانے سے بچاؤ میں ان کی ملازمتیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتیں۔ کئی اقتصادی اندازے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ایران میں 80 فیصد گھرانوں کی آمدنی عالمی سطح پر طے کردہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہوتی ہے۔
ایران میں پھانسیوں کے خلاف قیدیوں کا احتجاج اور بھوک ہڑتال
ایک اور ایرانی خاتون نرگس* نے بھی اپنے حالات زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کافی زیادہ ناامیدی کا اظہار کیا۔ خود کو ایرانی معاشرے میں جنریشن زی کی ایک عام نمائندہ قرار دینے والی اس نوجوان خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اشیائے صرف کی قیمتیں ناقابل یقین حد تک زیادہ ہیں اور ہر روز بدلتی ہیں۔ ہمارا خاندان دو افراد کی ماہانہ آمدنی پر گزارہ کرتا ہے، لیکن پھر بھی بنیادی اشیائے صرف کی خریداری ایک کڑا امتحان ثابت ہوتی ہے۔‘‘
نرگس کا کہنا تھا، ''ملبوسات، جوتوں یا کسی اور چیز کی اضافی خریداری تو ناممکن ہو چکی ہے۔ بکرے اور مرغی کا گوشت، مچھلی، حتیٰ کہ چاول بھی، یہ سب کچھ ہی ہر مہینے تو نہیں خریدا جا سکتا۔ ہم یہ سب کچھ مختلف مہینوں میں باری باری خریدتے ہیں۔‘‘
غزہ معاہدے کی حمایت کا مطلب امریکی پالیسی کی منظوری نہیں، ایران
جنگ اور بین الاقوامی پابندیاں
اس سال جون میں ایران کی پہلے ہی سے بہت زیادہ دباؤ کا شکار معیشت کو اس وقت بہت بڑا دھچکہ لگا، جب ایران اور اسرائیل کے مابین مسلح تنازعہ 12 روز تک جاری رہا۔ عام ایرانی شہریوں پر اس جنگ کا فوری منفی اثر پڑا۔ تنازعے کے شدید تر ہو جانے کا خوف بڑھا، تو اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
پھر اقوام متحدہ نے تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے باعث ایران کے خلاف اپنی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں۔ اس پیش رفت نے بھی ایرانی عوام، خاص طور پر نوجوانوں کو شدید متاثر کیا اور انہیں خدشہ ہے کہ ان پابندیوں کے اور زیادہ منفی اثرات ابھی مستقبل قریب میں دیکھنے میں آئیں گے۔
نرگس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کچھ لوگ بہت پرامید ہیں، کچھ انتہائی حد تک ناامید اور پریشان۔ کچھ کو توقع ہے کہ ایران کو شاید بیرون ملک سے کچھ مدد مل سکے۔ لیکن بہت سے ایرانی ایسے بھی ہیں، جو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف ہیں۔ ایرانی معاشرے میں اس وقت بہت زیادہ داخلی تقسیم پائی جاتی ہے۔‘‘
مستقبل غیر واضح
امین* نامی ایک ایرانی نوجوان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''آپ جہاں بھی جس کسی سے بھی کچھ بھی سنیں، ہر کوئی ناامیدی کی بات کرتا ہے، خاص طور پر نوجوان طبقہ۔ مستقبل کا قطعی طور پر غیر واضح ہونا اور سماجی اور اقتصادی حوالے سے کسی بھی ترقی کا امکان نظر نہ آنا بھی لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ ان کی یہ پریشانی باقاعدہ نظر بھی آتی ہے۔ کبھی کبھی تو لوگ اتنے قنوطیت پسند ہو جاتے ہیں کہ وہ جنگ کی یا پھر مرنے تک کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔‘‘
امین نے کہا، ''ایرانی حکومت کا یہ غالب بیانیہ کہ غیر ملکی خطرات اور دھمکیاں عوام کو متحد کر دیں گے، پہلے ہی اپنا قابل اعتبار ہونا کھو چکا ہے۔ مزید کسی بھی جنگ سے صورت حال محض بد سے بدتر ہی ہو گی۔‘‘
ایران میں قالین بافی کی صنعت اور اس کے زوال کی کہانی
دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای
بہت سے ایرانی نوجوانوں کو خدشہ ہے کہ تہران کے کسی بھی بیرونی طاقت کے ساتھ کسی نئے مسلح تنازعے کا نتیجہ بھی عام ایرانی شہریوں کو ہی بھگتنا پڑے گا اور یوں ایرانی معاشرے میں کسی بھی سیاسی اور اقتصادی تبدیلی اور اصلاھات کا بچا کھچا امکان بھی کم تر ہو جائے گا۔
ایرانی خاتون نرگس کا کہنا تھا، ''میرے تمام ذاتی خواب تو بکھر چکے۔ اب میری صرف یہی خواہش ہے کہ میرے ملک میں آزادی ہو، خوشحالی اور اقتصادی بحالی، جو ایرانی باشندوں کو ان کے موجودہ شدید مسائل اور تفکرات سے نجات دلا سکیں۔‘‘
*اس آرٹیکل میں سبھی ایرانی نوجوانون کے نام ان کی سلامتی سے متعلق خدشات کے باعث تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ