ایرانی جنگی طیاروں کے اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر اولین حملے، پینٹاگون
3 دسمبر 2014واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کِربی نے منگل کی شام نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ امریکا کو ایسے اشارے ملے ہیں کہ گزشتہ کئی دنوں کے دوران ایران کے F-4 فینٹم طرز کے جنگی ہوائی جہازوں نے اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر کئی بار بمباری کی۔
پینٹاگون کے ترجمان کا یہ بیان عرب ٹیلی وژن ادارے الجزیرہ کی طرف سے نشر کی جانے والی اس ویڈیو فوٹیج کے بعد دیا گیا ہے، جس میں مشرقی عراقی صوبے دیالہ میں بظاہر ایف چار طرز کے طیاروں کو دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ اسی قسم کے فینٹم جنگی طیارے تھے، جو ایرانی فضائیہ استعمال کرتی ہے۔
اس بارے میں ریئر ایڈمرل جان کِربی نے قبل ازیں واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عراق میں دوسرے ملکوں کی طرف سے فوجی طیاروں کی پروازوں کی نگرانی اور انہیں مربوط بنانا بغداد میں ملکی حکومت کا کام ہے نہ کہ امریکی فوجی کمانڈروں کا۔
جان کِربی نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہمارے طیارے بھی عراقی فضائی حدود میں عسکری پروازیں کرتے ہیں۔ ہم ایسا عراقی حکومت کے ساتھ مربوط مفاہمت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اپنے ملک کی فضائی حدود کو کسی تنازعے سے پاک رکھنا عراقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘‘
اس حوالے سے پینٹاگون کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ یہ بات امریکی پالیسی کا حصہ ہے کہ واشنگٹن اپنی عسکری سرگرمیوں کو ایرانی حکام کے ساتھ مربوط نہیں رکھتا۔ ’’ہماری اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایرانی فورسز مبینہ طور پر عراق میں زمینی کارروائیوں کے دوران تو شیعہ ملیشیا گروپوں اور بغداد حکومت کے مسلح دستوں کی حمایت میں سرگرم رہی ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا نے تصدیق کی ہے کہ عراق میں ایرانی جنگی طیارے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملے بھی کرتے رہے ہیں۔
اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ایران نے عراقی فضائیہ کو اپنے سُوخوئے Su-25 طرز کے طیارے بھی فراہم کیے ہیں۔ ان طیاروں کے حوالے سے عمومی قیاس آرائی یہی ہے کہ ان ہوائی جہازوں کو ایرانی پائلٹ ہی چلا رہے ہیں۔
عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف ان ایرانی فضائی حملوں کی امریکی تصدیق اس امر کا تازہ ترین ثبوت ہے کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ یا داعش کے عسکریت پسندوں کی وجہ سے لاحق خطرات کتنے شدید ہیں۔ دوسری طرف جہادیوں کے خلاف جنگ میں امریکا اور ایران جیسے دو بڑے حریف ممالک اگر ایک دوسرے کے اتحادی نہیں ہیں تو کم از کم ان کے مقاصد ایک سے ہیں اور وہ اس جنگ میں ایک ہی محاذ پر ہیں۔
ایران نے ابھی تک نہ تو عراق میں اپنی فضائیہ کی کارروائیوں کے بارے میں کچھ کہا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کِربی کے بیانات کی کوئی تصدیق یا تردید کی ہے۔ شیعہ حکمرانوں والا ایران عراق میں شیعہ اکثریت والی حکومت کے قریب ترین اتحادیوں میں شامل ہے۔