تہران سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر نطنز میں قائم ایرانی جوہری مرکز میں دو جولائی کو پیش آنے والے ایک پراسرار واقعے میں یہ تنصیب بری طرح سے متاثر ہوئی تھی۔ یہ محض حادثہ تھا یا اسرائیلی منظم حملہ؟
اشتہار
گزشتہ ہفتے کے دوران ایران میں عسکری تنصیبات کے قریب دھماکے ہوئے۔ جوہری تنصیب کے علاوہ تہران میں ایک فیکٹری، طبی سہولت کے مرکز اور تہران کے مغرب میں پارچین کے مقام پر میزائلوں کی ایک ایرانی تنصیب جیسے مقامات دھماکوں سے متاثر ہوئے۔
ایرانی حکام نے ان واقعات کو حادثہ قرار دیا لیکن کئی ایرانیوں کا خیال ہے کہ یہ واقعات کسی اسرائیلی خفیہ حملے کا نتیجہ تھے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز سمیت کئی میڈیا اداروں نے بھی بعد ازاں خاص طور پر نطنز واقعے کو اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی منظم کارروائی کا نتیجہ قرار دیا۔
نطنز جوہری مرکز کیوں اہم ہے؟
دو جولائی کو نطنز جوہری تنصیب پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بھی تہران حکومت نے ابتدا میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایرانی اٹامک انرجی ایجنسی نے ابتدا میں کہا کہ نطنز میں ایک 'حادثے‘ کے نتیجے میں زیر تعمیر ویئر ہاؤس کو نقصان پہنچا۔ ادارے نے ایک منزلہ عمارت کے کچھ بیرونی حصوں کی تصاویر بھی جاری کی تھیں۔ یہ کمپلیکس زیادہ تر زیر زمین ہے۔ زمین کے اوپر دکھائی دینے والی عمارت میں کھڑکیاں اور دروازے تباہ ہو کر باہر کی جانب کھلے ہوئے تھے اور آگ کے نشانات بھی دیکھے گئے تھے۔
نطنز جوہری مرکز ایران کے ایٹمی پروگرام میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی ہے۔ تہران حکومت کے مطابق اس مرکز کو جدید 'سینٹری فیوجز‘ تیار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ حکام نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس واقعے سے قبل جدید سینٹی فیوج تیار کرنے کا عمل جاری تھا۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن 2015 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران نے یورنیم کی افزودگی محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ 'فرسٹ جنریشن‘ سینٹی فیوجز کی تعداد بھی کم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اسی معاہدے کے تحت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ماہرین کو بھی اس مرکز کا دورہ کرنے اور جائزہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
'پراسرار حملہ‘ - ہوا کیا تھا؟
واقعے کے بعد ایرانی اٹامک انرجی ایجنسی نے 'حادثے‘ کی تصدیق کی۔ اس کے بعد سرکاری نیوز ایجنسی نے بھی کہا کہ نطنز میں 'نمایاں مالی نقصان‘ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ واقعے کے مقام پر کوئی تابکار مواد نہیں تھا اس لیے خطرے کی بھی کوئی بات نہیں۔
اگلے ہی روز ایرانی سپریم نیشنل کونسل نے بتایا کہ 'حادثے کی وجہ کی بالکل درست نشاندہی‘ کر لی گئی ہے تاہم سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دے کر مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا گیا۔
ایرانی میڈیا میں تو اس واقعے کی تفصیلات ظاہر کرنے سے گریز کیا گیا۔ لیکن پے در پے ہونے والے واقعات کے باعث لوگوں میں افواہیں گردش کرنے لگیں۔
'قاسم سلیمانی کے قتل جیسا حملہ‘
ایرانی حکام نے اس حملے کی نہ تو زیادہ تفصیلات بتائیں اور نہ ہی اس حملے کا الزام کسی پر عائد کیا۔ تاہم ایک ہفتے کے اندر اندر ایران کی طاقتور مذہبی قیادت کے قریب سمجھے جانے والے میڈیا نے اسرائیل اور امریکا پر حملہ کرنے کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے نتائج سے متنبہ کرنا شروع کر دیا۔
ایرانی ویب سائٹ ھمشری آن لائن نے لکھا کہ حملے کے لیے جگہ اور وقت کا تعین ایسے کیا گیا کہ جانی نقصان بھی نہ ہو اور تابکاری بھی نہ پھیلے۔ ھمشری نے اس واقعے کو 'جنرل سلیمانی کے قتل جیسا حملہ‘ قرار دیا۔
ایرانی سپریم کونسل کے قریب سمجھے جانے والے میڈیا نے لکھا کہ اسرائیل نے یہ حملہ امریکی اجازت حاصل کرنے کے بعد ہی کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی فارسی سروس نے بھی اپنی رپورٹ میں حملے کی خبر آنے سے پہلے ہی بتایا تھا کہ 'یوزپلنگان وطن‘ نامی ایک باغی گروہ نے انہیں نطنز میں حملے کی اطلاع دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ اس تنظیم نے دعویٰ کیا کہ ایرانی سکیورٹی اداروں میں ان کے لوگ موجود ہیں اور انہی کے تعاون سے نطنز ایٹمی مرکز کے اندر جا کر دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔
'طویل منصوبہ بندی، سوچ سے بڑا حملہ‘
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے جمعہ دس جولائی کو اپنے ایک مفصل مضمون میں اس حملے کو اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا۔
اخبار کے مطابق اسرائیل اور امریکا کی اس حکمت عملی میں ایران کے ساتھ براہ راست جنگ سے گریز کرتے ہوئے خفیہ حملوں کا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پوچھے جانے پر بھی نطنز واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا حالاں کہ وہ ایران کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
علاوہ ازیں مائیک پومپیو کے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ڈائریکٹر یوسی کوہن کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔ کوہن ہی کی قیادت میں ایک دہائی قبل نطنز میں اسرائیل خفیہ ادارے موساد نے سائبر حملے کے ذریعے قریب ایک ہزار سینٹی فیوجز تباہ کر دیے تھے۔ سن 2018 میں موساد ہی کے ایک آپریشن کے دوران ایران سے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے سے متعلق دستاویزات حاصل کر لی گئی تھیں۔
ایران کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت ختم کرنے یا سست کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے خفیہ آپریشنز میں ایک پہلو یہ بھی سامنے رکھا گیا کہ ایرانیوں کو آپس میں بھی لڑایا جائے۔
کوہن کی مدت ملازمت ختم ہونے والی تھی لیکن نطنز حملے کے ساتھ ہی ملازمت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی۔
اس رپورٹ میں ماہرین نے تاہم خبردار بھی کیا جنرل قاسم سلیمانی کی طرح انقلابی گارڈز کے دیگر اہم افسران اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے مختصر مدتی فوائد تو ہوں گے لیکن طویل مدتی نقصان یہ بھی ہو گا کہ ایران آئندہ اپنے جوہری ارادے مزید خفیہ طور پر پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔