ایرانی جوہری معاہدے پر اتفاق رائے ایک اچھی خبر ہے
3 اپریل 2015![](https://static.dw.com/image/18359798_800.webp)
جمشید فاروقی اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حل کے لیے مذاکرات بارہ سال سے چلے آرہے ہیں اور اس دوران صرف ایک ہی سوال ہر جانب گردش کرتا رہا کہ ’’ڈیل یا نو ڈیل‘‘۔ اسی امید کے ساتھ دنیا کی نظریں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان پر ٹکی ہوئی تھیں، جہاں کامیابی اور ناکامی کے درمیان فرق انتہائی کم تھا۔
فاروقی مزید لکھتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے طے ہونے والا اصولی معاہدہ ایک تاریخی پیش رفت ہے اور یہ ایران سمیت پوری دنیا کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں، ’تاہم لوزان میں ہونے والے اس اتفاق رائے پر محتاط انداز میں ہی خوشی منانی چاہیے کیونکہ اصل مشکل مرحلہ اس وقت درپیش ہو گا، جب چھوٹی چھوٹی جزیات طے کی جائیں گی‘۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے بقول یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والی بات چیت ایک طویل مذاکراتی دور میں تبدیل ہوئی ہو، یعنی جوہری مذاکرات نہیں بلکہ جوہری پوکر۔ مذاکرات کی میز پر صرف دو ہی کارڈ موجود تھے، اتفاق رائے اور کامیابی جبکہ دوسرا کارڈ تھا ناکامی اور تباہی۔ فاروقی کے مطابق اس صورت حال میں دانشمندی اور بصیرت کی فتح ہوئی ہے۔
یہ ایک ایسا انتہائی سنجیدہ معاملہ تھا، جس کا تعلق عالمی سیاست پر پڑنے والے غیر متوقع اثرات سے تھا۔ دنیا کے اہم ترین سیاستدانوں کی جانب سے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے اتنا زیادہ وقت دینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ معاملہ ویٹو طاقت رکھنے والے تمام ممالک اور جرمنی کے لیے کتنی اہمیت کا باعث تھا۔ جمشید فاروقی کے بقول لوزان میں جب جوہری بات چیت شروع ہوئی تو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جا سکتے اور انہیں اس معاملے کو نتیجہ خیز بنانا ہے اور ان دونوں نے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ تاہم کیا صرف ایک اصولی معاہدہ یا ایک فریم ورک پر اتفاق رائے ہی اتنی زیادہ محنت کا اصل صلہ ہے؟ کیا ایران اور عالمی طاقتوں کو اسی نتیجے کی امید تھی؟ ان سوالوں کا جواب بالکل واضح طور پر ’ہاں‘ میں ہے۔
تہران حکومت کے لیے اس موقع پر یہ سمجھوتہ اس کی بقا کے لیے بہت ہی ضروری تھا کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے ملکی معیشت شدید متاثر ہو چکی تھی۔ بے روزگاری اور افراط زر اپنی انتہائی حدود کو چھو رہی ہیں اور نوجوان نسل نا امیدی کا شکار ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ عرب اتحادی ممالک کے ساتھ کسی نئی جنگ کے خطرے کے وجہ سے بھی ایران کا جواب ’ہاں‘ میں تھا۔
ایران کے جوہری پروگرام کا سفارتی حل امریکی صدر باراک اوباما کی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی بھی ہے۔ تاہم اس موقع پر 47 امریکی سینیٹرز کی جانب سے تہران حکومت کو بھیجے جانے والے اس خط کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جس میں انہوں نے دھمکی دی ہےکہ اوباما کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اس معاہدے کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔
جمشید فاورقی مزید لکھتے ہیں کہ خطّے کی دیگر طاقتیں سعودی عرب، ترکی اور مصر بھی ایران کے ساتھ کسی جوہری معاہدے کی خلاف ہیں۔ کیونکہ جوہری تنازعے کی حل کی صورت میں تہران اور واشنگٹن ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں اوراس طرح ایران عالمی سیاسی منظر نامے پر بھی واپس آ جائے گا اور یہ علاقائی طاقتیں اسی چیز کو روکنا چاہتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار جمشید فاروقی کے بقول جوہری تنازعے کے حل کے لیے متعدد فیصلوں کو جلد از جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے مخالفین تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور انتہائی طاقتور بھی ہیں۔