ایرانی جوہری پروگرام اور امریکی وزیر خارجہ کا دورہٴ اسرائیل
17 جولائی 2012ہلیری کلبنٹن نے اسرائیل پہنچ کر کہا ہے کہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر ایرانی مؤقف واضح اور شفاف نہیں ہے اور اسی بنیاد پر امریکا دباؤ کو مسلسل رکھے گا تاوقتیکہ ایران متنازعہ ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔ امریکی وزیر خارجہ نے ملفوف انداز میں کہا کہ امریکا اپنی طاقت کے عناصر کو بروئے کار لاتے ہوئے ایران کو جوہری ہتھیار سازی سے روکے گا۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ان خیالات کا اظہار یروشلم میں اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ایران کے معاملے پر بات چیت کے بعد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک تہران حکام یورینیم کی افزودگی کے اپنے متنازعہ منصوبے کو حل نہیں کر لیتے، امریکا دباؤ جاری رکھے گا۔ مغربی طاقتوں کا مؤقف ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ تہران حکام کا کہنا ہے کہ ان کا نیوکلیئر پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے قدرے ڈھکے چھپے انداز میں انتباہی بیان دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہر کوئی یقینی طور پر اس بات کا خواہاں ہے کہ اس تنازعے کا سفارتی حل اہم ہے اور حوالے سے اسرائیل اور امریکا ایک جیسا مؤقف رکھتے ہیں۔ کلنٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایرانی قیادت اب بھی یہ موقع رکھتی ہے کہ وہ درست سمت میں فیصلہ کرے۔ کلنٹن کے مطابق انجام کار جو بھی فیصلہ کرنا ہو گا وہ ایران نے ہی کرنا ہے اور ابھی تک تہران کی جانب سے جو بھی تجاویز سامنے آئی ہیں وہ ایک طرح سے ناقابل عمل ہیں۔
اسرائیل کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مسلسل ملاقاتوں اور میٹنگوں میں مصروف رہی۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع ایہود باراک کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم سلام فیاض سے بھی کلنٹن نے ملاقات کی۔ ان میں ایرانی جوہری پروگرام کے علاوہ شام میں پرتشدد کارروائیوں کو ہر ممکن طریقے پر روکنے کے حوالے سے بھی وہ اظہار خیال کرتی رہیں۔ اسرائیل کے لیے شام ایک مشکل ہمسایہ ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہلیری کلنٹن نے اپنے اس دورے کے دوران ملاقاتوں کے سلسلے میں اسرائیلی صدر شمعون پیریز سے بھی ایک گھنٹے کی ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد اسرائیلی صدر اور امریکی وزیر خارجہ نے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا۔ شمعون پیریز نے اس بیان میں مصر کے ساتھ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری امن معاہدے کی اہمیت کو واضح کیا اور شام میں حکومتی جبر کی مذمت کی۔ کلنٹن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اسرائیلی صدر کے ساتھ مصر اور شام کے علاوہ امن مذاکرات کی موجودہ صورتحال کو بھی گفتگو کا حصہ بنایا۔ کلنٹن کے مطابق بات چیت کے دوران بعض بین الاقوامی امور کے ساتھ علاقائی اور خطے کے امور کے ہمراہ ایرانی جوہری پروگرام پر بھی بات کی گئی۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ہلیری کلنٹن کا یہ اسرائیل کا آخری دورہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ستمبر سن 2010 کے بعد اسرائیل کے دورے پر تھیں۔ وہ بارہ روزہ غیر ملکی دورے کے بعد منگل کے روز امریکا کے لیے واپس روانہ ہو گئی ہیں۔
ah/ng (AP)