1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی جوہری پروگرام، عالمی طاقتوں کے ساتھ اختلاف تاحال موجود

عاطف توقیر9 نومبر 2013

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات بدستور موجود ہیں۔ تہران ان مطالبات کو مسترد کر رہا ہے، جن میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پلوٹونیم تیار کرنے والے ایک ری ایکٹر کو بند کرے اور یورینیم کو افزودگی کی نچلی سطح پر لائے۔

تصویر: Reuters

فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین اختلافات اب بھی موجود ہیں، کیوں کہ ایران ملک میں موجود اعلیٰ افزودہ یورینیم کو اس سطح پر لانے سے کترا رہا ہے، جہاں جوہری ہتھیاروں کی فوری تیاری ممکن نہیں ہوتی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنیوا میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے ساتھ تہران حکومت کے جاری مذاکرات کے حوالے سے فرانسیسی وزیرخارجہ کا یہ بیان واضح معلومات کا حامل ہے کیوں کہ اس سے قبل عالمی طاقتوں اور ایرانی مذاکرات کاروں کے درمیان اختلافات کی خبریں تو سامنے آ رہی تھیں، تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ یہ اختلافات کس وجہ سے ہیں۔

ایران کے ساتھ مذاکرات میں عالمی طاقتوں کی نمائندگی یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کرتی رہی ہیں، تاہم کسی ممکنہ معاہدے کی تیاری اور ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکا، برطانیہ، روس، جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ بھی جنیوا میں ان مذاکرات میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعرات کے روز شروع ہونے والے یہ مذاکرات اب تیسرے دن میں داخل ہو چکے ہیں اور عالمی طاقتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ اختلافات کو ختم کر کے کسی معاہدے تک پہنچا جائے۔

مذاکرات میں پیش رفت کے باوجود کسی معاہدے کا طے پا جانا غیریقینی صورتحال کا شکار ہےتصویر: Reuters

لاراں فابیوس نے بتایا کہ اختلافات کا مرکز تہران کے جنوب مشرقی علاقے عَراق میں قائم جوہری ری ایکٹر ہے، جو پلوٹونیم تیار کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اگر یہ ری ایکٹر کام کرتا رہے، تو ایک برس میں متعدد جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ فابیوس نے مزید بتایا کہ ایران کے ساتھ ان مذاکرات میں تہران پر یہ زور بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں یورینیم کی افزودگی کی حد متعین کرے اور یورینیم کو اس حد تک افزودہ کرنے سے باز رہے کہ وہ کسی جوہری ہتھیار میں استعمال ہو سکے۔ تاہم فابیوس نے بتایا کہ ایران ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران کو پیشکش کی گئی ہے کہ اگر وہ ملک میں جاری یورینیم کی افزودگی روک دے تو اس پر عائد سخت ترین عالمی پابندیوں میں رفتہ رفتہ نرمی کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب ایران کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اس کا جوہری پروگرام خالصتاﹰ پرامن اور سائنسی نوعیت کا ہے۔ واضح رہے کہ ایران کے پاس دس ہزار سے زائد سینٹری فیوجز موجود ہیں، جن کے ذریعے فیول گریڈ یورینیم تیار کیا جا رہا ہے، تاہم اس یورینیم کو مزید افزودہ کر کے جوہری ہتھیار تیار کیے جا سکتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران کے پاس تقریبا 440 پاؤنڈ ایسا افزودہ یورینیم موجود ہے، جسے مزید افزودہ کر کے جوہری ہتھیار تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس 20 فیصد افزودہ یورینیم کی مقدار 550 کلوگرام ہو جائے، تو اس سے ایک جوہری بم بنایا جا سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں