ایرانی جوہری ڈیل سے امریکی علیحدگی، افغان معیشت متاثر ہو گی
20 مئی 2018
ماہرین کے مطابق امریکا کی ایرانی جوہری ڈیل سے دستبرداری کے نتیجے میں افغان اقتصادیات کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ فیصلہ اُس امریکی اسٹریٹیجی کو بھی متاثر کرے گا جو افغان معیشت کے لیے ٹرمپ نے مرتب کر رکھی ہے۔
اشتہار
اپنی طویل ترین جنگ کو اختتام تک لانے کے لیے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی ہے کہ امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل افغانستان کی معاشی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ اس جنگ زدہ ملک کو مزید اقتصادی بیساکھیوں کی ضرورت نہ رہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایرانی جوہری ڈیل سے دستبرداری کے بعد پابندیوں کے نفاذ سے افغانستان کی معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
اس تناظر میں سب سے اہم ایران کی چابہار بندرگاہ کا منصوبہ ہے۔ چابہار پورٹ کمپلیکس بھارتی سرمایہ کاری سے تعمیر کیا جانے والا تجارتی منصوبہ ہے اور امریکا کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ سے یہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اس ایرانی بندرگاہ کو افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے بین الاقوامی تجارت کا ایک کوریڈور قرار دیا جا رہا ہے۔
ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ چابہار بندرگاہ کی تعمیر سے افغانستان کی تجارت کے لیے ایک ایسا راستہ کھل جائے گا، جس کے ذریعے وہ لاکھوں ڈالر کی تجارت دوسرے ملکوں سے شروع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کابل حکومت پاکستان پر اپنا تجارتی انحصار بھی کم کر سکے گی۔
یہ امر اہم ہے کہ افغانستان کی اقتصادی تعمیر سے کابل حکومت کا غیرملکی امداد پر انحصار بھی کم ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے افیون کی غیرقانونی تجارت کا بھی قلع قمع ممکن ہو گا۔ افیون اور اس سے تیار کی جانے والی دوسری منشیات سے افغان طالبان کو بھی سرمایہ حاصل ہوتا ہے۔
امریکی صدر کے فیصلے سے چابہار پر جاری سرگرمیاں یقینی طور پر محدود ہو کر رہ جائیں گی اور مالی فوائد حاصل کرنے کے سبھی پروگرام دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ امریکی پابندیوں کے نفاذ سے بینکاری کا نظام بھی متاثر ہو گا اور سرمایہ کار مختلف منصوبوں کو جاری رکھنے سے قاصر ہوں گے۔
ایک بھارتی سفارت کار کے مطابق امریکی صدر کے فیصلے سے اب چابہار منصوبے کی شرائط کو ازسر نو مرتب کرنا ہو گا۔ اس اہم تجارتی و اقتصادی منصوبے میں شامل کئی غیر ملکی کمپنیاں شش و پنج میں مبتلا ہیں اور اس باعث کئی منصوبوں کی تکمیل ادھوری رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔