1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی حملہ: پاکستان کی طرف سے ممکنہ ردعمل

عبدالستار، اسلام آباد
17 جنوری 2024

ایران کی طرف سے پاکستان کے علاقے پنجگور میں عسکریت پسند تنظیم جیش العدل کے مبینہ ٹھکانوں پر حملے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

Schweiz | Weltwirtschaftsforum in Davos - Hussein Amirabdollahian
تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance

 اس  ایرانی  حملے میں دو پاکستانی بچے ہلاک جبکہ تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اسام آباد کی طرف سے ممکنہ ردعمل پر بحث جاری ہے۔ چند ماہرین کا خیال ہے کہ  اسلام آباد کی طرف سے سخت رد عمل آسکتا ہے جب کہ کچھ ماہرین اس واقعے کے بعد نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطے میں بھی کشیدگی بڑھنے کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں۔

پنجگور کا شہری

پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''ہم نے کل رات تین دھماکوں کی آوازیں سنیں، جو وقفے وقفے سے ہوئے۔ یہ دھماکے پہاڑی علاقوں میں ہوئے، جہاں حکام کسی کو بھی جانے نہیں دے رہے۔

سنی تنظیمیں متحرک ہوسکتی ہیں

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ ایران  کی طرح پاکستان کی بھی خطے میں بہت ساری پراکسیز ہیں اور عسکری طور پہ جواب دینے کی بجائے ان پراکسیز کو استعمال کیا جائے گا۔ ڈاکٹر سرفراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں پاکستان کی سنی تنظیموں کے جنداللہ سے قریبی تعلقات تھے اور اب ان کے جیش العدل سے قریبی مراسم ہیں۔ تو قوی امکان یہ ہے کہ جیش العدل کے حملے ایران میں بڑھیں گے اور پاکستانی تنظیمیں ان کی معاونت بھی کریں گی۔‘‘

جنوب مغربی پاکستان کے علاقے ایرانی سرحدوں سے متصل ہیںتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

 ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان کے اندر ایرانی مفادات کو بھی خطرہ ہوگا۔ ''ماضی میں ایرانی سفارت خانے کے افراد، ایران نواز مذہبی رہنماؤں اور خانہ فرہنگ پر حملے ہوئے ہیں۔ تو خطرہ یہ ہے کہ اس طرح کے حملے شیعہ مخالف تنظیمیں پاکستان میں دوبارہ شروع کر سکتی ہیں۔‘‘

ایجسنیوں کی سرگرمیاں تیز ہوں گی

سلامتی امور کے چند ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان  کے افغانستان اور بھارت سے پہلے ہی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ تو ایسی صورت میں وہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے سلامتی امور کے ماہر جنرل ریٹائڑڈ طلعت مسعود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں دونوں ممالک میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کے علاوہ سفارتی سطح پر بیان بازی میں تیزی آئے گی۔‘‘

پاکستان کو محتاط ہونا چاہیے

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کچھ ایران مخالف تنظیموں کے امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے بھی روابط رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایران کو پاکستان کے ساتھ اطلاعات شیئر کرنا چاہیے اور پاکستان کو یہ اطلاعات لے کر ایسے گروپوں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔‘‘

خطے میں کشیدگی بڑھے گی

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایران جیش العدل کو ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے ایرانی مفادات پر حملے کیے ہیں۔ تاہم  اس ایرانی حملے میں دو بچے ہلاک ہوئے ہیں اور اس پر پاکستان کا سخت ردعمل آرہا ہے۔‘‘

پاکستان کے صوبے بلوچستان اور ایران کے علاقے بلوچستان کے درمیانی علاقے میں اکثر و بیشتر دہشت گردانہ واقعات ہوتے رہتے ہیںتصویر: Mohammad Aslam/AFP/Getty Images

ڈاکٹر نور فاطمہ کے مطابق ان حملوں نے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔ ''ماضی میں امریکہ نے ڈرون حملے کیے، جو خود مختاری کے خلاف تھے لیکن اس پر خاموشی اختیار کی گئی لیکن ایران کے معاملے میں پاکستان کا رد عمل مختلف ہو سکتا ہے۔‘‘

نور فاطمہ کے مطابق صورتحال پہ چین بھی تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ خطہ بھی کشیدگی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔‘‘

جیش العدل

جیمز ٹاون فاؤنڈیشن کی دوہزار سترہ کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق جیش العدل  ایک اور دوسری ایرانی عسکریت پسند تنظیم جنداللہ کے زوال کے بعد دوہزار بارہ میں نمودار ہوئی۔ جنداللہ کے رہنما  بانی عبدالمالک ریگی کو دوہزار دس میں گرفتار کیا گیا اور انہیں اسی برس سزائے موت دی گئی۔

اس گروپ کی نظریاتی اساس دیوبندی مکتبہ فکر پر مبنی ہے اور یہ ایرانی فورسز اور ان کے مفادات پر حملے کرتی ہے۔

جیش العدل کے حملے

اکتوبر دوہزار تیرہ سے نومبر دوہزار پندرہ کے درمیان اس گروپ نے  12 دہشت گردانہ حملے کیے جس میں تقریباً 53 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے ان میں سے زیادہ تر حملے ہاتھ لگا کر پاکستانی بارڈر کے قریب کیے گئے۔

ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق تنظیم جیش  العدل ایرانی صوبے سستان بلوچستان کو ایران سے آزاد کرنے کی بات کرتی ہے۔  اس عسکریت پسند گروپ کا سربراہ صلاح الدین فاروقی ہے جبکہ نائب امیر ملا عمر درخشان ہے۔ فاروقی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 1979 ء میں رسک علاقے میں پیدا ہوا، جو ایرانی سستان بلوچستان میں ہے اور وہاں کے رہائشیوں کے  پاکستان کے بلوچ علاقوں کے ساتھ گہرے قبائلی روابط ہیں۔

ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں انتہا پسند تنظیم داعش کے بھی خفیہ ٹھکانے پائے جاتے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

 جیش العدل نے گزشتہ برس دسمبر میں ایک حملے میں 11 ایرانی پولیس والوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے  اکتوبر 2013 ء میں ایرانی شہر سراوان میں 14 بارڈر گارڈز کو ہلاک کیا اور اُسی سال اس حملے کے کچھ ہفتوں بعد زابل میں ایک قانونی ماہر کو قتل کیا۔ نومبر دوہزار تیرہ میں اس گروپ نے 14 سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک اور چھ کو زخمی کیا تھا۔

فروری 2014 ء میں اس نے پانچ ایرانی پولیس والوں کو اغوا کیا۔ اسی سال کے اکتوبر میں سستان بلوچستان میں اس نے تین پولیس والوں کو ہلاک کیا۔

اپریل 2015ء  میں اس نے آٹھ ایرانی بارڈر گارڈز کو سرحد پر حملے کر کے ہلاک کیا اور کچھ دونوں بعد پاسداران انقلاب کے دو افسران کو قتل بھی  کیا۔

اپریل 2017 ء میں اس نے نو بارڈر گارڈز کو ہلاک کیا جبکہ اکتوبر 2018 ء میں اس نے 12 ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کیا۔

دسمبر 2019 ء میں اس نے دو پولیس والوں کو ہلاک اور چالیس کو زخمی کیا۔ اس سال کے جنوری اور فروری میں اس نے کئی حملے کیے جس میں بہت سارے سکیورٹی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ فروری 2019 ء میں سب سے بڑا حملہ اس نے پاسداران انقلاب پر کیا جس میں 27 افسران مارے گئے تھے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں