ایران نے کہا ہے کہ اگر لبنان کو ضرورت ہوئی تو اسے خام تیل کی مزید ترسیل ممکن بنائی جائے گی۔ لبنان کو ایندھن کی شدید قلت کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اس ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
اشتہار
پیر کے دن ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اپنی ہفتہ وار آن لائن نیوز کانفرنس میں کہا کہ تہران حکومت لبنان میں ایندھن کی قلت پر قابو کی خاطر تعاون کو تیار ہے۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب لبنانی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے کہا کہ لبنان کو آئندہ چند روز میں ایرانی ایندھن کی ترسیل ہو جائے گی۔
خطیب زادہ نے کہا، ''ہم تیل اور دیگر مصنوعات کی فروخت کا فیصلہ خود کرتے ہیں، جس میں اپنے دوستوں کی ضروریات کا دھیان بھی رکھا جاتا ہے۔ اگر ضرورت ہوئی تو ایران ایک مرتبہ پھر لبنان کو ایندھن کی کھیپ روانہ کرے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم لبنانی افراد کو مشکلات میں نہیں دیکھ سکتے ہیں‘۔
خطیب زادہ کے بقول اگر بیروت حکومت چاہتی ہے تو لبنانی شعیہ تاجروں کو فراہم کردہ ایندھن کے علاوہ بیروت حکومت کو بھی تیل فراہم کیا جائے گا۔ تاہم لبنان میں ایران نواز شیعہ تنظیم حزب اللہ کے مخالفین نے ایران سے تیل خریدنے سے خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح بیروت حکومت پر عالمی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جس سے ملک کیگزشتہ دو برسوں سے علیل معیشت کو مزید نقصان ہو سکتا ہے۔
اشتہار
پابندیوں کا خوف
سن دو ہزار اٹھارہ میں عالمی جوہری ڈیل سے دستبردار ہوتے ہوئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ ان پابندیوں کے تحت ایران کی تیل کی صنعت کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ ایران سے تیل خریدنے والے ممالک اور کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا کہا گیا تھا۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
تصویر: dapd
8 تصاویر1 | 8
سن 1982 میں ایران کے پاسدران انقلاب نے لبنان میں حزب اللہ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ ایران نواز یہ شیعہ تنظیم بھی امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔
ادھر گزشتہ چار روز میں اپنے دوسرے نشریاتی خطاب میں حسن نصراللہ نے لبنان کے لیے ایرانی تیل کی ترسیل کا وعدہ کرتے ہوئے لبنان میں تیل کی قلت کے خاتمے کے امریکی حمایت یافتہ منصوبے کو ایک سراب قرار دیے دیا۔ واضح رہے کہ لبنانی مرکزی بینک کی جانب سے تیل کی درآمد پر سبسڈی کے خاتمے کے بعد لبنان میں تیل کی قیمتوں میں تین گنا تک اضافہ دیکھا گیا تھا۔
تاہم لبنانی رہنما ہفتے کے روز قلیل المدتی بنیادوں پر ایندھن پر سبسڈی جاری رکھنے کے ایک فوری معاہدے پر متفق ہو گئے تھے۔ لبنانی صدر اور وزیر اعظم دفاتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس سمجھوتے کے ذریعے ملک میں ایندھن کی فوری قلت کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز پر لبنان کے مرکزی بینک کے سربراہ نے کہا تھا کہ وہ ایندھن کی درآمد پر خصوصی ایکسچینج ریٹ جاری نہیں رکھیں گے۔ اس کا عملی مطلب ملک میں ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ قرار دیا گیا تھا۔ ہفتے کے روز ہی صدارتی دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مرکزی بینک سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ عارضی اور استثنائی بنیادوں پر ایندھن پر سبسڈی جاری رکھنے کے لیے ایک کھاتا کھول دے۔