ایرانی حکومت کا اخلاقی پولیس کا محمکہ ختم کرنے کا اعلان
4 دسمبر 2022
تہران حکومت کا یہ فیصلہ اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کے دباؤ کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ ناقدین کے مطابق مسئلہ اخلاقی پولیس کا نہیں بلکہ سر پر لازمی اسکارف اوڑھنے کے قانون کا ہے۔
اشتہار
ایرانمیں گزشتہ دو ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد حکومت نے سخت گیر اخلاقی پولیس کا محمکہ ختم کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے اتوار کے روز اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اخلاقی پولیس کا محمکہ ختم کر دیا جائے گا۔ ایرانی نیوز ایجنسی اسنا کے مطابق منتظری کا کہنا تھا، ''اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اس لیے اسے ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ پولیس فورس ایک بار پھر کسی دوسرے مقصد یا نام کے ساتھ کھڑی کی جائے گی؟ سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق "اخلاقی" جرائم کے لیے سزائے موت اور قانونی کارروائی کا عمل جاری رہے گی۔ منتظری نے ہفتے کے روز مذہب پر مبنی پالیسی کا خاکہ پیش کرنے والی ایک کانفرنس کو بتایا،''یقیناً، عدلیہ طرز عمل کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف سسیکس میں بین الاقوامی تعلقات کے سینئر لیکچرار کامران متین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کے اعلان کو احتیاط کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ متین نے واضح کیا کہ ایران کی اخلاقی پولیس عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے قانون نافذ کرنے والی نام نہاد فورسز یا پولیس فورس چلاتی ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے متین کا کہنا تھا،''ایسا اعلان واقعی اس(عدلیہ) کے ادارے کو کرنا چاہیے اور ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔‘‘
تہران حکومت دباؤ کا شکار
ستمبر کے مہینے میں 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب صحیح طریقے سے نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا تاہم وہ دوران حراست انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مہینوں تک حکومت مخالف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کی اندورن ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر حمایت کی گئی۔ اسی باعث امینی کی موت کے بعد سے تہران حکومت کافی دباؤ میں ہے۔
دوسری جانب حکومت کے ناقدین نے اس اعلان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین کے مطابق مسئلہاخلاقی پولیسکا نہیں بلکہ سر پر لازمی اسکارف اوڑھنے کے قانون کا ہے۔ گزشتہ روز محمد جعفر منتظری نے یہ بھی کہا تھا کہ ایرانی پارلیمان اور عدلیہ حجاب قانون کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس حوالے سے عوام کو تنائج سے آگاہ کیا جائے گا۔ ایران میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حجاب قانون اور اخلاقی پولیس کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
نام نہاد اخلاقی پولیس ایران کی پولیس فورس کی ایک اکائی ہے، جسے اسلامی لباس کے ضابطوں اور عوام میں دیگر سماجی رویوں سے متعلق قوانین کو نافذ کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ اس فورس نے 2006 ء میں قدامت پسند صدر محمود احمدی نژاد کےاقتدار میں آنے کے بعد سڑکوں پر گشت شروع کیا تھا۔
ش ر / ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔