ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر جان بولٹن نے ایرانی حکومت کو نہ گرانے پر صدر کی نکتہ چینی کی ہے۔ بولٹن نے 2015 کے جوہری معاہدے کی بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ’سراسر جھوٹ‘ پر مبنی قرار دیا ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ تہران میں حکومت تبدیل کر دینی چاہیے۔
جان بولٹن نے منگل کے روز ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”میرے خیال میں مشرق وسطی میں حقیقی امن اور سلامتی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک آیت اللہ کی حکومت تبدیل نہیں کردی جاتی، صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس سے جوہری ہتھیاروں کا خطرہ لاحق ہے بلکہ اس لیے بھی کیونکہ وہ دہشت گردی کی مسلسل مدد کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے حوالے سے زیادہ دباو کی پالیسی نہ اپنانے کے لیے ٹرمپ کو قصوروار سمجھتے ہیں۔”میں اس کے لیے صدر کو قصوروار سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اس پالیسی کی منطق پر پوری طرح سے عمل نہیں کیا اور تہران حکومت کو نہیں گرایا۔"
بولٹن نے کہا کہ سن 2015 کا جوہری معاہدہ ”ایران کے اس سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ اس کا جوہری ہتھیاروں کا کبھی کوئی پروگرام نہیں رہا ہے۔"
یورپ کی 'خوش فہمی‘
بولٹن، جو صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں اقوام متحدہ کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، نے کہا کہ جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کو ''آیت اللہ حکومت کے خطرات کا اندازہ تھا لیکن وہ ایران کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے خوش فہمی کا شکار ہوگئے۔"
بولٹن کا کہنا تھا”میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنا جوہری پروگرام کبھی ترک نہیں کیا۔"
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی سے حاصل ہونے والی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے بولٹن نے کہا کہ 'ایران کے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اسے کبھی ترک نہیں کیا۔"
بولٹن نے مزید کہا، ”ایسے کوئی اسٹریٹیجک اشارے نہیں ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ وہ اسے ترک کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایک مطلق العنان حکومت کا سیدھی سادی جمہوریتوں کے ساتھ اسی طرح کا ایک اور معاہدہ ہے جو یہ کہتا ہو کہ 'ہا ں ٹھیک ہے ہم ٹھوس اقتصادی فائدے کے بدلے میں جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ترک کردیں گے۔"
سابق قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ اگر نو منتخب صدر جو بائیڈن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکا کو دوبارہ شامل کرتے ہیں تو یہ ایک تباہی ہوگی۔
انہوں نے کہا، ”اس سے ایران کو اس راستے پرآگے بڑھتے رہنے کی اجازت مل جائے گی جس پر وہ اس وقت گامزن ہے۔" انہوں نے مزید کہا، ”میں یورپی ملکوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا ہوں لیکن ایران کو یورینیم افزودہ کرنے یا پلوٹینیم کی ری پروسیسنگ صلاحیت کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی تھی۔"
ج ا / ص ز
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا