ایرانی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی
10 ستمبر 2013![](https://static.dw.com/image/17074631_800.webp)
اسلامی جموریہ ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بطور صدر پارلیمان سے اپنے پہلے خطاب میں ملک کے اقتصادی مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی حسن روحانی نے کہا تھا کہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں نے ایران کی اقتصادیات کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
ایران اور مغربی دنیا کے مابین تعلقات کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ محض تہران کا متنازعہ ایٹمی پروگرام نہیں رہا ہے بلکہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے اسرائیل کے خلاف تند و تیز بیانات بھی اس کی بڑی وجہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ احمدی نژاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلاتے بھی رہے ہیں۔ ایران کی نئی قیادت اپنے ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے اور ایران کی ایک مصالحتی شکل پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے چار ستمبرکو صدر روحانی کی طرف سے ایک ٹوئٹر پیغام میں خیر سگالی کے طور پر یہودیوں، خاص طور سے ایران میں آباد یہودی برادری کو اُن کے نئے سال کے موقع پر نیک تمناؤں کا پیغام دیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ایرانی صدر کے ایک اہم مشیر نے ٹوئٹر کے ذریعے دیے گئے اس پیغام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حسن روحانی کا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے۔
ہولو کوسٹ یا یہودیوں کے قتل عام کو کبھی نہیں جھٹلانا
یہودیوں کے نئے سال کے موقع پر وزیر خارجہ جواد ظریف کی جانب سے سوشل نیٹ ورکننگ کے ذریعے جو پیغام بھیجا تھا اُس کی کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ بلکہ انہوں نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ ایران یہودیوں کے قتل عام کے واقعے کو کبھی نہیں جھٹلاتا بلکہ نازی سوشلسٹوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ایران کی طرف سے مغربی دنیا کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کی نشاندہی اس امر سے بھی ہو رہی ہے کہ تہران حکومت نے اپنے جوہری پروگرام سے متعلق معاملات کو اب وزیر خارجہ کو سونپ دیا ہے جو آئندہ ہونے والے عالمی مذاکرات میں ایران کے اعلیٰ ترین رابطہ کار کے طور پر مغربی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ یاد رہے کہ اب تک ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق معاملات سعید جلیلی کی نگرانی میں قومی سلامتی کونسل کی ذمہ داری تھی۔
گلاسگو یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ایک ایرانی پروفیسر رضا تقی زادہ اس بارے میں کہتے ہیں،’’ایران کے نئے صدر حسن روحانی کی طرف سے ایٹمی پروگرام سے متعلق امور کو وزیر خارجہ کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ نئی حکومت مغرب کے ساتھ جوہری تنازعے کے حل کے لیے نئے راستے اختیار کرنا چاہتی ہے‘‘۔
ایران نتیجہ خیز مذاکرات چاہتا ہے
ماہ رواں یعنی ستمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگراں کیتھرین ایشٹن ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کریں گی۔ تاہم تمام فریقین کو اس امر کا بھرپور ادراک ہے کہ امریکا کی طرف سے شامی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی حملہ تمام تر سفارتی منصوبہ بندی کو تہس نہس کر دے گا۔
اب سوال نظام کی بقا کا ہے
ایرانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے کیا ارادے ہیں اور وہ ایران کی مستقبل کی پالیسیوں سے کیا امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ برلن میں مقیم سیاسی امور کے ماہر مہران باراتی کے بقول’’ ایران کے نئے وزیر خارجہ جواد ظریف آیت اللہ خامنہ ای کی خارجہ پالیسی سے متعلق سوچ کو سفارتی الفاظ میں پیش کرنا جانتے ہیں بلکہ انہیں اس پر عبور حاصل ہے‘‘۔ باراتی کا کہنا ہے کہ خامنہ ای ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ایران کی ایٹمی پالیسیوں کے ضمن میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے الفاظ حرف آخر ہی رہیں گے۔