’ایرانی خواتین کو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت ہو گی‘
1 جولائی 2023
ایران کے فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ نے گزشتہ روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ایرانی خواتین کو فٹ بال اسٹیڈیم میں جا کر میچ دیکھنے کی اجازت ہو گی۔
اشتہار
حال ہی میں روس کے خلاف ایک دوستانہ میچ کے دوران خواتین شائقین کو فقط اسٹینڈز تک جانے کی اجازت ہی دی گئی تھی۔ فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ کے اس بیان کے بعد بھی ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس موقف پر عمل درآمد کب سے شروع کیا جائے گا اور اس کے لیے کیا خاص شرائط رکھی جائیں گی۔
فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ مہدی تاج نے ایک تقریب کے موقع پر کہا، ''خوش قسمتی سے ملک کی سلامتی کونسل نے اس بات کی منظوری دے دی ہے اور اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔‘‘
ملک کے سخت گیر مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مرد شائقین کے ساتھ اسٹیڈیم میں خواتین کے جانے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ ایران میں حالیہ برسوں میں خواتین شائقین کے لیے مقرر کردہ ضوابط میں ورلڈ گورننگ باڈی فیفا کے دباؤ میں آکر پابندیوں میں کچھ نرمی کی گئی ہے۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔
تصویر: facebook/my stealthy freedom
10 تصاویر1 | 10
حالانکہ باضابطہ طور پر ایران میں خواتین پر میچز دیکھنے جانے پر پابندی نہیں ہے لیکن انہیں سٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایران کے مذہبی حکمران طویل عرصے سے خواتین کی مردوں کے فٹ بال میچوں کو دیکھنے کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایرانی خواتین پر 1979 کے انقلاب کے فوراً بعد مردوں کے فٹ بال میچوں کی میزبانی کرنے والے اسٹیڈیم میں داخلے کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
عالمی فٹ بال کی گورننگ باڈی فیفا نے ستمبر2019 میں ایران کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ خواتین کو بغیر کسی پابندی کے اسٹیڈیم تک رسائی کی اجازت دے۔ جس کے بعد ایران نے اپنے فیصلے میں نرمی تو کی تھی لیکن وقتاﹰ فوقتاﹰ ایران میں خواتین کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے سے روکنے کے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں۔
فیفا کی جانب سے یہ ہدایات 29 سالہ ایرانی لڑکی سحر خُدایاری کی عدالت کے باہر خودسوزی کے بعد جاری کی گئی تھیں۔ سحر کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور انہیں 'غیر اسلامی حلیے‘ کی وجہ سے گرفتار کرنے کے بعد تین دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ رہا ہونے کے بعد انہوں نے خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔