1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی سپریم کورٹ نے جرمن شہری کی سزائے موت پر مہر لگا دی

27 اپریل 2023

ایران کی سپریم کورٹ نے 'زمین پر فساد' برپا کرنے کے الزام میں ایران نژاد جرمن شہری کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت منصفانہ طور پر نہیں ہوئی۔

Iran I Deutsch-Iraner Djamshid Sharmahd in einem Teheraner Revolutionsgericht
تصویر: fars

ایران میں 26 اپریل بدھ کے روز عدالتی سماعت کے بعد ایرانی نژاد جرمن شہری جمشید سرمد کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔ واضح رہے کہ سرمد ایرانی شہریت کے ساتھ ہی جرمن شہری بھی ہیں۔

جرمنی، ایران کا ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی ملک بدری کا حکم

ایک ایرانی عدالت نے پہلی بار جمشید سرمد کو فروری میں، شہر شیراز میں سن 2008 میں ہونے والے ایک مہلک حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں، سزائے موت سنائی تھی۔ اس حملے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

جرمنی نے دو ایرانی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا

عدلیہ کے ترجمان مسعود ستیشی نے کہا، ''سپریم کورٹ نے سزا کی توثیق کر دی ہے۔ نچلی عدالت کو مطلع کرنے کے بعد، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔''

ایران میں جاسوسی کے الزامات پر گرفتار مغربی شہری کون ہیں؟

ادھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے اس کے رد عمل میں کہا کہ ایران کا یہ فیصلہ ''ناقابل قبول'' ہے۔ انہوں نے کہا کہ 68 سالہ جمشید سرمد کے مقدمے کے دوران، ''کسی بھی وقت منصفانہ سماعت کا آغاز تک نہیں ہوا۔''

جرمنی نے ایرانیوں کی ملک بدری کا سلسلہ روک دیا

بیئربوک نے بتایا کہ ایران میں جرمنی کے سفیر سرکاری کام کاج کے سلسلے میں ملک میں ہی تھے، جنہیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑا اور اب انہیں ایرانی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے واپس تہران بھیجا گیا ہے۔

یورپی یونین کا ایرانی پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد قرار دینے پر غور

 

اپنی حراست سے قبل 68 سالہ جمشید سرمد کیلیفورنیا میں رہتے تھے اور گزشتہ فروری میں انہیں پہلی بار سزائے موت سنائی گئی تھیتصویر: Koosha Falahi/Mizan/dpa/picture alliance

سرمد پر الزام کیوں لگایا گیا؟

ایران نے ان پر ایک مسلح گروپ کی قیادت کرنے کا الزام  لگایا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسی گروپ نے سن 2008 میں شیراز کی ایک مسجد میں ایک ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔

ایرانی انٹیلیجنس وزارت کے مطابق سرمد کو سن 2020 میں ''دہشت گرد ٹونڈر گروپ'' کی قیادت کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ گروپ امریکہ سے ایران میں مسلح اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے کا کام کرتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹونڈر گروپ لاس اینجلس میں مقیم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ مغربی حمایت یافتہ اس ایرانی بادشاہت کو بحال کرنا چاہتا ہے، جو سن 1979 کے اسلامی انقلاب سے پہلے ایران پر حکومت کیا کرتی تھی۔

اپنی حراست سے قبل 68 سالہ سرمد کیلیفورنیا میں رہتے تھے۔ گزشتہ فروری میں انہیں سزائے موت دی گئی تھی اور ان پر ''ایف بی آئی اور سی آئی اے افسران'' کے ساتھ رابطے میں رہنے اور ''اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹوں سے رابطہ کرنے کی کوشش'' کا الزام لگایا گیا تھا۔

سزائے موت کے رد عمل میں جرمنی نے برلن میں ایرانی سفارت خانے کے دو اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ جواباً ایران نے بھی گزشتہ ماہ دو جرمن سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔

سرمد کے اہل خانہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے کسی بھی حملے میں ملوث تھے۔ ان کے مطابق وہ ٹونڈر گروپ کے صرف ایک ترجمان تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی حکام دبئی سے سرمد کو اغوا کر کے ایران لے گئے۔

ایرانی عدالت کے مطابق رواں برس کے آغاز سے اب تک سرمد سمیت دہری شہریت رکھنے ایسے تین افراد کو سزائے موت یا پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

جنوری میں ایران نے ایرانی نژاد برطانوی شہری علی رضا اکبری کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے دی تھی، جس پر بین الاقوامی سطح پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

جرمن کمپنیاں ایران میں بہترین کاروباری مواقع کے لیے پر امید

02:49

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں