ایران میں گلوکار توماج صالحی کو سنائی گئی سزائے موت منسوخ
22 جون 2024
ایرانی سپریم کورٹ نے ملک کے معروف گلوکار توماج صالحی کو سنائی گئی سزائے موت منسوخ کرتے ہوئے ان کے خلاف نئے سرے سے مقدمہ چلائے جانے کا حکم سنا دیا ہے۔ انہیں سزائے موت حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی وجہ سے سنائی گئی تھی۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران سے ہفتہ 22 جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق توماج صالحی کے وکیل نے بتایا کہ ملکی عدالت عظمیٰ نے اس بہت مقبول ریپر کو مہسا امینی نامی خاتون کی دوران حراست ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے ملک گیر عوامی مظاہروں کی حمایت کرنے کے الزام میں سنائی گئی سزائے موت نہ صرف منسوخ کر دی ہے بلکہ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ان کے خلاف عائد کردہ الزامات کی نئے سرے سے عدالتی سماعت کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔
توماج صالحی کے وکیل امیر رئیسیان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''صالحی کو سنائی گئی سزائے موت سپریم کورٹ نے منسوخ کر دی ہے۔ ساتھ ہی ان کے خلاف مقدمہ نئے سرے سے چلانے کا حکم بھی سنایا گیا ہے۔‘‘
تین دسمبر 1990ء کو پیدا ہونے والے توماج صالحی اپنے ریپ میوزک کی وجہ سے بہت مشہور ہو جانے والے ایسے ایرانی گلوکار ہیں، جو ایران کی حکومت اور سیاسی مذہبی قیادت پر تنقید کرنے والی مرکزی شخصیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔
اشتہار
انہوں نے 2022ء کے موسم خزاں میں ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مناسب انداز میں حجاب نہ کرنے والی ایک نوجوان کرد نژاد ایرانی خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہو جانے والے ملک گیر عوامی مظاہروں کی حمایت کی تھی اور اسی لیے انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پھر ایران میں اسلامی انقلاب سے دشمنی کے الزام میں انہیں اسی سال اپریل میں ایک ذیلی عدالت نے سزائے موت سنا دی تھی۔ سزاے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد حکام نے اپریل کے وسط میں ان کے جیل سے باہر کسی کو بھی ٹیلی فون کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی اور ان سے رابطہ ممکن نہیں رہا تھا۔
پیدائشی طور پر ایرانی شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والے توماج صالحی بختیاری برادری کے باشندے ہیں، جو ایران میں ایک تسلیم شدہ سماجی اقلیت ہے۔ انہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران اپنے گیتوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مذہبی اور سیاسی قیادت پر جس طرح تنقید کی، اس میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد عوامی مظاہروں کی حمایت نے اضافہ ہی کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ گرفتاری کے بعد انہیں آج سے دو ماہ قبل سزائے موت سنا دی گئی تھی، جس پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
توماج صالحی کو سنائی گئی سزائے موت کی اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں شدید مذمت کی گئی تھی۔ اسی لیے اب ایرانی سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی یہ سزا منسوخ کیے جانے پر حکومتی ناقدین کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف مقدے کی نئے سرے سے سماعت کے آئندہ نتائج سے بھی مثبت امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔
م م / ا ا (روئٹرز، ڈی پی اے)
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔