ایرانی سکیورٹی فورسز نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں
2 ستمبر 2020
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ ایران میں گزشتہ برس ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز نے اندھا دھند گرفتاریاں کیں اوران افراد کو بری طرح سے اذیتیں دی گئیں۔
اشتہار
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ دو ستمبر کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس نومبر میں حکومت مخالف مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ایرانی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کیا اور ان سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سرزد ہوئیں۔ تنظیم کے مطابق مظاہرین کوگرفتار کرنے کے بعد اعتراف جرم کے لیے انہیں بری طرح سے زد و کوب بھی کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق تہران میں حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف ہوا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ان پر قابو پانے کے لیے سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں اور بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ایرانی حکومت نے طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں عام شہریوں کو گرفتار کیا جو اب بھی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
بچوں کی گرفتاریاں
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے درجنوں واقعات کی تحقیق کی ہے جس میں دس برس تک کی کم عمر کے بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ لوگوں کی شہادتوں سے، ''اندھادھندگرفتاریوں، لوگوں کا زبردستی لا پتہ ہونا، زد و کوب کے واقعات اور اس طرح کے دیگر ناروا سلوک جیسی انسانی حقوق کی حیران کن خلاف ورزیوں کی ایک طویل فہرست سامنے آئی ہے۔''
رپورٹ کے مطابق گرفتار کیے گئے بیشتر افراد کو بدامنی پھیلانے، حزب مخالف کے گروہوں سے تعلق رکھنے یا پھر بیرونی طاقتوں سے روابط رکھنے کے اعتراف جرم کے لیے انہیں ٹارچر کیا گیا۔ انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے مظاہروں کے سلسلے میں 500 سے زائد افراد کے ایسے نام درج کیے ہیں جن پر، ''غیر منصفانہ مجرمانہ کاروائی کی گئی۔''
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
10 تصاویر1 | 10
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران میں ایسے گرفتار شدہ سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت جانبدار ججوں نے کی اور سینکڑوں افراد کو غیر منصفانہ طور پر یا تو قید کی سزا سنا دی یا پھر انہیں کوڑے لگوائے جبکہ بہت سے کیسز میں ایسے افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ تنظیم کے مطابق مظاہروں میں شامل ہونے والوں میں سے ایک بڑی تعداد کو ایک ماہ سے دس برس تک کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
واٹر بورڈنگ اور جنسی تشدد
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گرفتار شدہ افراد کو زد و کوب کرنے کے لیے پانی میں ڈبو کر دم گھٹنے کا احساس کرانے (واٹر بورڈنگ)، انہیں بری طرح سے پیٹنے، بجلی کے جھٹکے دینے، پرائیوٹ جنسی اعضاء پر مرچ چھڑکنے، جنسی تشدد کرنے، فرضی پھانسی دینے اور ہاتھ کی انگلیوں اور پیر کے انگوٹھوں کے ناخن اکھاڑنے جیسے طریقوں کا استعمال کیا گیا۔
اسی برس مئی میں ایران کے وزیر داخلہ نے خود تسلیم کیا تھا کہ مظاہروں کے دوران پیٹرل پمپ میں آگ لگانے، پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے اور دکانوں کو لوٹنے جیسی کارروائیوں میں 225 افراد تک ہلاک ہوئے تھے۔
گزشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے ماہرین نے کہا تھا کہ ایران میں مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ ایمنسٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں تین سو سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ لیکن ایران اس تشدد کی ذمہ داری ان گروپوں پر عائد کر تا ہے جن کی اسرائیل امریکا اور سعودی عرب جیسی بیرونی طاقتیں حمایت کرتی ہیں۔