ایرانی صدر رئیسی کا پہلی بار غزہ میں فلسطینی ریلی سے خطاب
15 اپریل 2023
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے غزہ میں فلسطینیوں کے حق میں ایک ایسی سالانہ ریلی سے پہلی مرتبہ آن لائن خطاب کیا، جس میں حماس کے سینکڑوں حامی شریک ہوئے۔ ابراہیم رئیسی سے قبل آج تک کسی ایرانی صدر نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔
اشتہار
غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فلسطینیوں کی حمایت میں اس سالانہ ریلی سے ایرانی صدر کا خطاب ایک ایسا واقعہ ہے، جس کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہی خطاب اس امر کی طرف واضح اشارہ بھی ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے لیے ایران کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔
حماس کو کئی بین الاقوامی اداروں اور ممالک نے باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور یہی عسکریت پسند فلسطینی تنظیم گزشتہ کئی برسوں سے غزہ پٹی کے اسی فلسطینی علاقے پر حکمران بھی ہے، جہاں جمعہ چودہ اپریل کے روز ایرانی صدر رئیسی نے پہلی بار ایک ریلی سے ورچوئل خطاب کیا۔
ایرانی صدر نے کیا کہا؟
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جس فلسطینی نواز ریلی سے خطاب کیا، اس میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے سینکڑوں حامی بھی شریک ہوئے اور حماس سے چھوٹی ایک اور عسکریت پسند فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے بہت سے کارکن بھی۔ ایرانی صدر کے خطاب کے وقت یہ تمام شرکاء ایک فٹ بال میدان میں جمع تھے۔
صدر رئیسی نے اپنے خطاب میں فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ ایرانی صدر نے کہا، ''فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے آگے بڑھنا آج فلسطینی فائٹرز کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کہتے ہوئے صدر رئیسی نے فلسطینی خود مختار انتظامیہ کہلانے والے اور مغربی کنارے پر حمکران اس سیاسی دھڑے کو تقریباﹰ مسترد کر دیا، جو فلسطینیوں کی داخلی سیاست میں حماس کا حریف سیاسی دھڑا ہے۔
فلسطینی خود مختار انتظامیہ صدر محمود عباس کی قیادت میں طویل عرصے سے فلسطینیوں کی اپنی ایک علیحدہ، آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے لیے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ہی کوششیں کرتی رہی ہے۔
اشتہار
حماس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش
ایرانی صدر نے غزہ میں جس ریلی سے خطاب کیا، اس کا اہتمام یوم القدس کے موقع پر کیا گیا تھا۔ یہ دن ہر سال رمضان کے اسلامی مہینے کے آخری جمعے کو منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔
ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں
02:29
کل یوم القدس کے موقع پر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے بہت سے شہروں میں ہزارہا شہریوں نے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کیے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ابراہیم رئیسی کا غزہ میں ریلی سے خطاب دراصل ایران کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت تہران حماس کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیدا شدہ کھچاؤ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس کھچاؤکا پس منظر یہ ہے کہ ایران طویل عرصے تک حماس کا سرپرسٹ رہا ہے مگر ایرانی خانہ جنگی کے باعث دونوں کے مابین اختلافات بھی پیدا ہو گئے تھے۔
عسکریت پسند تنظیم حماس اگرچہ سنی فلسطینیوں کی تنظیم ہے مگر اس کے عسکریت پسند دھڑے کے ایران کے ساتھ طویل عرصے سے قریبی روابط ہیں۔ شیعہ اکثریتی آبادی والا ایران حماس کو مالی وسائل بھی مہیا کرتا رہا ہے اور دونوں کے مابین قربت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ہی اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
ایران نے کبھی بھی کھل کر یہ نہیں کہا کہ تہران حماس کی کس طرح اور کتنی مدد کرتا ہے۔ لیکن ایران کی طرف سے ملنے والی مدد پر حماس کئی بار تہران کا شکریہ ادا کر چکی ہے۔
م م / ع ت، ش ح (اے پی، اے ایف پی)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔