ایرانی صدر کی تقریر کا بیشتر حصہ امریکا پر مرکوز تھا، جس میں انہوں نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو 'انسانیت کے خلاف منظم جرائم‘ قرار دیا۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا ہے۔
اشتہار
ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں ایران اور مشرق وسطی پر عائد امریکی پابندیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایران اب اسی صورت میں جوہری معاہدے کی بات چیت میں شامل ہو گا جب یہ بات چیت اس پر عائد پابندیوں کا ازالہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوں۔
ان کی تقریر پہلے سے ریکارڈ شدہ تھی جس میں انہوں نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو، ''انسانیت کے خلاف منظم جرائم'' قرار دیا اور کہا کہ ایک ایسے وقت جب کورونا وائرس کی وبا پھیل رہی تھی اس وقت بھی یہ پابندیاں عائد رہیں جس سے بیرونی ممالک سے ویکسین کی در آمدبھی متاثر ہوئی۔
ان کا اشارہ ان امریکی پابندیوں کی جانب تھا جب سن 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکا کو جوہری معاہدے سے الگ کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران اسی صورت میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات میں حصہ لے گا، جب وہ پابندیاں ختم کرنے کا باعث بنیں۔
واضح رہے کہ اس برس جولائی کے اواخر سے جوہری مذاکرات ٹھپ پڑے ہیں کیونکہ نئے ایرانی صدر نے اپنی کابینہ تشکیل دینے کے لیے مہلت طلب کی تھی اور کہا تھا کہ مکمل حکومت سازی کے بعد ہی وہ دوبارہ اس میں شامل ہوں گے۔
ایرانی صدر نے ایک بار پھر سے ملک کے جوہری پروگرام کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ یہ پر امن مقاصد کے لیے ہے اور اس کی ملک کے دفاعی حکمت عملی میں قطعی طور پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''وہ سائنس جو انسانیت کی بھلائی کے لیے ہو وہ پابندیوں سے مبرا ہوتی ہے۔''
اشتہار
مذاکرات دوبارہ جلد شروع ہونے کا امکان
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ویانا مذاکرات بہت جلد شروع ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس برس کے اوائل میں ویانا میں امریکا کے اتحادی یورپی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جس میں امریکی حکام بھی بالواسطہ طور پر شامل تھے۔ تاہم جولائی سے یہ بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
ایرانی صدر کے خطاب کے فوری بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''ہر میٹنگ میں پیشگی ہم آہنگی اور ایجنڈے کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے زور دیا جا چکا ہے، ویانا مذاکرات جلد اور اگلے چند ہفتوں میں دوبارہ شروع ہوں گے۔''
امریکا جوہری معاہدے میں واپسی کا متمنّی
اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس بات کا واضح اشارہ دیا کیا کہ اگر ایران بھی ایسا کرنے کے لیے راضی ہو تو امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں مکمل طور پر واپسی کے لیے تیار ہے، اور اس کے لیے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا، '' امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے... اگر ایران ایسا کرتا ہے تو ہم (معاہدے) کی مکمل تعمیل پر واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس معاملے میں چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور مشترکہ جامع منصوبے کے نام سے اس، ''معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت بھی کر رہا ہے۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔