ایرانی صدر کا دورہ شام: فلسطینی، اسرائیلی مذاکرات اہم موضوع
18 ستمبر 2010ایرانی ذرائع نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ صدر احمدی نژاد کے اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید پختگی اور فلسطینی اسرائیلی براہ راست مذاکرات پر دونوں ملکوں کے تحفظات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
ذرائع کے مطابق دمشق اور تہران دونوں ہی محمود عباس اور فلسطینی انتظامیہ کو فلسطینی عوام کا نمائندہ تصور نہیں کرتے اور وہ ایسے براہ راست مذاکرات، جن میں حماس کو نمائندگی نہ دی جائے، قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
غزہ پٹی کا علاقہ کنٹرول کرنے والی عسکریت پسند تنظیم حماس، جسے تہران اور دمشق دونوں کی حمایت حاصل ہے، پہلے ہی ان مذاکرات کو مسترد کر چکی ہے۔ امریکی ثالثی میں ہونے والے اسرائیلی فلسطینی مذاکرات میں حماس کو شرکت کی دعوت بھی نہیں دی گئی تھی۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب صرف ایک روز قبل بشار الاسد نے امریکی خصوصی مندوب برائے مشرق وسطیٰ جارج مچل سے ملاقات کی ہے۔ واشنگٹن اور دمشق کے درمیان تعلقات میں گزشتہ کچھ برسوں میں خاصی سرد مہری پیدا ہوئی ہے اور اس کا اثر شام اور ایران کے درمیان تعلقات میں قربت کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے۔
احمدی نژاد اور بشار الاسد نے ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان ویزہ کی پابندی کے خاتمے پر بھی بات چیت کی۔ اس کے علاوہ شام اور ایران کے درمیان دیگر شعبوں میں بھی قریبی تعاون پر غور کیا گیا۔
احمدی نژاد شام کے بعد الجزائر جا رہے ہیں۔ وہ الجزائر کے بعد نیویارک کے لئے روانہ ہوں گے، جہاں انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پیر کے روز سے شروع ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنا ہے۔
ایرانی صدر کے وفد میں وزیرخارجہ منوچہر متقی اور داخلی امور کے وزیر کے علاوہ متعدد ایرانی حکومتی شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل ایرانی صدر نے رواں برس فروری میں شام کا دورہ کیا تھا۔ اُس دورے میں احمدی نژاد نے لبنان کی عسکری و سیاسی جماعت حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ سے بھی ملاقات کی تھی۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان