1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدر کی موت، پاکستان میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

20 مئی 2024

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ایکس پر لکھا کہ اس دکھ کی گھڑی میں ایران کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ملک میں ایک روزہ سوگ اور پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان بھی کیا۔

Irans Präsident zu Staatsbesuch in Pakistan
تصویر: Uncredited/Prime Minister Office/AP/dpa/picture alliance

اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے لکھا، ''میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اس ناقابل تلافی نقصان پر ایرانی قوم کے ساتھ اپنی گہری تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔''

انہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان ایرانی عوام کے دکھ میں اظہار یکجہتی کے طور پر ایک روزہ سوگ منائے گا اور ساتھ ملک کا پرچم آج کے روز سرنگوں رکھا جائے گا۔ 

ایرانی صدر کی موت پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے ایکس پر لکھا،  ’’پاکستان کو ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل صدر رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے تاریخی دورے کی میزبانی کرنے کا موقع ملا تھا۔ وہ پاکستان کے اچھے دوست تھے۔‘‘

پاکستانی رہنما نے اپریل میں رئیسی کی تین روزہ دورے پر اسلام آباد میں میزبانی کی تھی تاکہ پڑوسیوں کے درمیان اس سال کے شروع میں مہلک حملوں کی تجارت کے بعد تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے۔

چند ماہ قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی پاکستان آمد پر لی گئی تصویر۔ تصویر: Prime Minister Office/AP/picture alliance

صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایرانی صدر، وزیر خارجہ اور حادثے میں جاں بحق دیگر افراد کے سوگواران سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "صدر ابراہیم رئیسی امت مسلمہ کے اتحاد کے بڑے حامی تھے، عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا، ایرانی صدر فلسطینی اور کشمیری عوام سمیت عالمی سطح پر مسلمانوں کے درد کو دل سے محسوس کرتے تھے، آج پاکستان ایک عظیم دوست کو کھو دینے پر سوگوار ہے۔  "

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے واقعہ پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس افسوسناک واقعے پر ہر پاکستانی غمزدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایران اور اس حادثے میں مرنے والوں کے خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ 

اس کے ساتھ ہی دیگر کئی پاکستانی سیاسی رہنماؤں نے رئیسی کی موت پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تعزیتی پیغامات لکھے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں