ایرانی عدم تعمیل جوہری معاہدے کے لیے خطرہ ہے، یورپی ممالک
13 فروری 2021
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایک بار پھر ایران کی جانب سے یورینیم کی طے شدہ حد سے زیادہ شرح تک افزودگی کی مذمت کی ہے۔ ان ممالک کو امید ہے کہ تہران اور واشنگٹن جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات میں واپس آ سکتے ہیں۔
اشتہار
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو مؤثر اور زیر عمل رکھنے کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اس حوالے سے 2015ء میں کیے گئے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کر کے اس بین الاقوامی معاہدے کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایران یورینیم کی افزودگی کی شرح بڑھا کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
تین بڑے یورپی ممالک برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی خواہش ہے کہ ایران اور امریکا اس معاہدے کے حوالے سے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن یا (جے سی پی او اے) کے تحت ہونے والی نئی بات چيت میں حصہ لیں۔
ان تینوں ممالک نے اس حوالے سے اپنے ایک مشترکہ مکتوب میں کہا ہے، ’’اپنی طرف سے عدم تعمیل میں اضافہ کر کے ایران جے سی پی او اے کے مقاصد کو اچھی طرح نا سمجھتے ہوئے سفارت کاری کے نئے مواقع کی اہمیت کو کم کر رہا ہے۔‘‘
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
جرمن وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تینوں یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ ایران کے پاس یورینیم کی بہت زیادہ حد تک افزودگی کا ’کوئی قابل اعتبار غیر عسکری جواز نہیں تھا، جو دراصل جوہری ہتھیار تیار کرنے کی طرف ایک کلیدی قدم ہے۔‘‘
معاہدے پر عمل یا پابندیاں ختم، پہلے کیا ہونا چاہیے؟
جنوری میں امریکا میں جو بائیڈن کی طرف سے عہدہ صدارت سنبھالے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے جے سی پی او اے پر نظر ثانی کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا تاہم اس سلسلے میں مذاکرات کی میز پر واپسی کے لیے دونوں ممالک کی اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ شرائط ہیں۔
یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں
00:37
ایران کا کہنا ہے کہ پہلے امریکا کو چاہیے کو وہ ان پابندیوں کو ختم کرے جو اس نے تہران پر لگا رکھی ہیں۔ لیکن واشنگٹن کا اصرار اس بات پر ہے کہ ایران پہلے اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بحال کرے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران کو یورینیم کی افزدگی کی شرح کم کر کے معاہدے کے تحت متفقہ حد یعنی 3.67 فیصد تک لانا ہوگی۔ ایران نے جوہری معاہدے کی رو سے یورینیم کی صرف 3.67 فیصدکی شرح تک افزودگی کی حد کو توڑتے ہوئے گزشتہ جنوری میں اپنی تنصیبات میں یورینیم کی 20 فیصد تک افزودگی شروع کر دی تھی۔
قبل ازیں پرسوں جمعرات کے روز ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ سب سے پہلے امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوا تھا، اس لیے اس معاہدے میں واپسی کے لیے پہل بھی اسے ہی کرنا چاہیے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سن 2015 میں طے پانے والے اس جوہری معاہدے سے امریکا کے الگ ہو جانے کے یکطرفہ اعلان کے بعد تہران نے بھی اس جوہری معاہدے کی شقوں کی پاسداری ختم کر دی تھی، جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ص ز / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان