ایرانی لڑکیوں کی بچپن کی شادیوں کے بعد جبر سے عبارت زندگی
مقبول ملک شیریں شکیب
12 ستمبر 2017
ایران کے دیہی علاقوں میں اکثر لڑکیوں کی بچپن ہی میں شادی کر دی جاتی ہے، جس کے بعد انہیں جبر و استحصال کا سامنا رہتا ہے۔ یہ عمل خاندانی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بھی بنتا ہے لیکن اسے ملکی قوانین کے تحت تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
اشتہار
اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کی شیریں شکیب اپنی ایک مفصل رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں خاص کر دیہی علاقوں میں بچپن کی یہی شادیاں سماجی سطح پر بہت سے خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جن بچیوں کی شادیاں بچپن ہی میں کر دی جاتی ہیں، وہ نہ صرف کم عمری میں جبر و استحصال سے عبارت زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں بلکہ ایرانی بچوں کی ایک پوری نسل اپنے بہتر مستقبل کے حوالے سے کسی بھی طرح کے بہتر امکانات سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔
اس کی چند مثالیں دیتے ہوئے شیریں شکیب نے لکھا ہے کہ ایسی ہی ایک لڑکی لائلہ کی شادی محض چند بکریوں کے بدلے اس کے والدین نے اس وقت کر دی تھی، جب اس کی عمر صرف 17 برس تھی۔ اس ایرانی لڑکی کو ابھی تک یاد ہے کہ کس طرح دلہن کے طور پر شادی کی تقریب میں زبردستی لے جائے جانے سے قبل اس کے والد نے اسے بری طرح پیٹا تھا۔
لائلہ کا تعلق شمال مشرقی ایران میں اسفراین نامی چھوٹے سے شہر کے ایک نواحی گاؤں سے ہے اور اس کی کہانی ان بہت سی نابالغ ایرانی لڑکیوں کی داستانوں سے مختلف نہیں ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے دیہی علاقوں یا قبائلی روایات والے خطوں میں رہتی ہیں۔ ایران کے مختلف علاقوں سے ایسی رپورٹوں کا ملنا بھی کوئی نئی بات نہیں کہ وہاں دس سال تک کی عمر کی لڑکیوں کو بھی شادیوں پر مجبو رکر دیا گیا۔
ایران میں بے گھر افراد
ایران میں ہزاروں افراد بے گھری پر مجبور ہیں جب کہ ناقدین اس کی ذمہ داری صدر حسن روحانی پر عائد کرتے ہیں۔
تصویر: IRNA
حد سے باہر
دسمبر کی ایک سرد رات میں، قریب ساڑھے سات سو بے گھر افراد تہران میں خواران نامی اس مقام پر موجود ہیں۔ اس سے قبل اس جگہ کبھی ایک رات میں چار سو سے زائد افراد جمع نہیں ہوئے۔
تصویر: IRNA
گرم ٹھکانہ
خواران ہال چھ سو افراد کو چھت مہیا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سرد راتوں میں مگر یہاں گیارہ سو افراد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس مقام پر مزدوروں کو بھی رکھا جاتا ہے، جہاں انہیں کھانا اور سونے کی جگہ دی جاتی ہے۔ ایران میں بے گھری کی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔
تصویر: Irna
گتے کے گھر
بے گھر افراد متعدد مقامات پر ہاتھ سے بنائے گئے یہ ٹھکانے بھی بنا لیتے ہیں۔ گتوں سے بنے یہ گھر ’کارٹن خواب‘ کہلاتے ہیں۔ دسمبر میں ایک 28 سالہ شخص ایک زیر تعمیر عمارت میں مردہ حالت میں ملا تھا۔ گتے سے بتائے گئے گھروں میں ہلاک متعدد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: shabestan.ir
بچوں کے گھر
گزشتہ برس اگست میں یہ تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔ گتے کا بچوں کا یہ ٹھکانہ تصویر میں دکھا کر انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت سے اقدامات کی اپیل کی تھی۔
تصویر: tnews
تباہ کن حالت
حکومت کی جانب سے بے گھروں کے لیے ایک منصوبے کے آغاز کے بعد اخبارات میں شائع ہوا کہ ان بے گھر افراد کو خالی قبروں میں رکھا جا رہا ہے اور بہت سے افراد نصیرآباد شہر میں کھلی قبروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: Isna
ذمہ داری روحانی پر
حکام نے قبرستان سے ان بے گھر افراد کو زبردستی ہٹا دیا۔ قدامت پسند اس معاملے کو صدر روحانی پر تنقید کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ روحانی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: shahrvanddaily.ir
زچگی کے مسائل
گزشتہ سردیوں میں بے گھر خواتین میں سے تین فیصد حاملہ تھیں۔ منشیات کی عادی زیادہ تر خواتین اس خوف سے طبی مراکز نہیں جاتی، کیوں کہ انہیں قانونی چارہ جوئی کا خطرہ ہوتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق چند خواتین مختلف گروہوں کو اپنے بچے فروخت تک کر دیتی ہیں۔
تصویر: Tasnimnews
بے گھر افراد کے لیے کام
امدادی ادارے ایران میں کئی دہائیوں سے ان بے گھر افراد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ہزاروں افراد کو خوراک اور چھت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔
تصویر: MEHR
8 تصاویر1 | 8
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق ایران میں 2016ء میں جتنی بھی شادیاں ہوئیں، ان میں سے 17 فیصد دلہنوں کی عمریں 18 برس سے کم تھیں۔
اس کے علاوہ ایران میں انسانی حقوق کے قومی مرکز نے سول رجسٹریشن کے ملکی ادارے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے 2015ء میں بتایا تھا کہ اس سے ایک برس قبل یعنی 2014ء میں کل 40 ہزار سے زائد ایرانی بچیاں ایسی تھیں، جن کی شادیاں 15 برس سے بھی کم عمر میں کر دی گئی تھیں اور سرکاری طور پر ان شادیوں کا باقاعدہ اندراج بھی کیا گیا تھا۔
شیعہ مسلم اکثریت والے ملک ایران میں، جہاں شرعی احکامات کو ملکی قوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے، شادی کے لیے لڑکیوں کی کم از کم قانونی عمر 13 برس اور لڑکوں کے لیے 15 برس ہے۔ یہی نہیں لڑکا لڑکی اگر اس سے بھی کم عمر کے ہوں، تو بھی متعلقہ فرد کے والد یا کسی دیگر قانونی سرپرست کی رضا مندی اور کسی مقامی عدالت کے جج کی طرف سے اجازت کے بعد ان کی قانونی شادی بھی ہو سکتی ہے۔
ایرانی لڑکی لائلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شمالی خراسان صوبے میں جہاں اس کا گاؤں ہے، وہاں کئی لڑکیوں کی شادی 11 برس تک کی عمر میں بھی کر دی جاتی ہے اور 16 یا 17 برس کی عمر تک پہنچتے ہوئے تو زیادہ تر لڑکیاں شادی شدہ ہوتی ہیں۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔
تصویر: facebook/my stealthy freedom
10 تصاویر1 | 10
لائلہ نے مزید بتایا کہ اس کے ایک بڑے بھائی نے، جو ایران کے دوسرے سب سے بڑے شہر مشہد میں رہتا ہے، حال ہی میں اپنی سب سے بڑی لیکن صرف 12 سالہ بیٹی کی شادی اس لیے کر دی کہ مالی طور پر وہ اس قابل نہیں تھا کہ اپنے پانچ بچوں کی اچھی طرح پرورش کر سکے یا ان کی جملہ ضروریات پوری کر سکے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران میں بچوں کی کم عمری میں کی جانے والی یہی شادیاں اس لیے بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں کہ بہت سے علاقوں میں ایسی شادیوں کی سرکاری طور پر رجسٹریشن کروائی ہی نہیں جاتی، جس کی وجہ سے خاص طور پر دلہنیں، جو کہ بچیاں ہی ہوتی ہے، اپنے جملہ قانونی حقوق سے بھی محروم ہی رہتی ہیں۔
سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق ایران میں لڑکیوں کی بچپن کی شادیوں کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں: بچپن میں ہی لڑکی کے والدین کی طرف سے کسی لڑکے کے والدین سے کیے گئے وعدے کے نتیجے میں کی جانے والی شادیاں، وہ قبائلی شادیاں جہاں کسی نابالغ لڑکی کو کسی خونی جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے مخالف قبیلے کے کسی فرد کی دلہن بنا دیا جاتا ہے اور تیسری قسم کم عمری کی وہ شادیاں ہیں، جن کے محرکات میں لڑکی کے والدین کی غربت سب سے نمایاں ہوتی ہیں۔
ایران میں حجاب کی تبلیغ کے لیے عجیب و غریب پوسٹرز
اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حجاب کی تبلیغ کے لیے سرگرم 32 تنظیموں اور گروپوں میں سے ایک خاص طور سے حجاب کی تبلیغ کے لیےایسے پوسٹرز اور بل بورڈز تیار کرتا ہے، جو مضحکہ خیز بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تاسف کا باعث بھی۔
تصویر: Hijab.ir
بہشت اور دوزخ کو جاتے راستے
اس تصویر میں بہشت کی طرف جانے والے راستے پر چلتی ہوئی خاتون کو باحجاب دکھایا گیا ہے اور بے حجاب خاتون کو جہنم کی طرف جانے والے راستے پر گامزن دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
تصویر: Hijab.ir
قیمتی چیزیں پردے میں
پیغام بہت سادہ سا ہے:’’بیٹی! یہ قانون فطرت ہے۔ قیمتی چیزیں ہمیشہ حفاظت کے لیے چُھپا کر یا ڈھانک کر رکھی جاتی ہیں۔‘‘
تصویر: Hijab.ir
سنگھار کر کے گھر سے نکلنا شر کو دعوت دینا ہے
اس پوسٹر پر درج ہے:’’جو عورت گھر سے سنگھار کر کے اور خوشبو لگا کر باہر نکلے اور اُس کا شوہر اُس کے اس عمل سے راضی ہو، تو ایسا کرنے والی عورت اپنا گھر گویا نذر آتش کر رہی ہے۔‘‘
تصویر: Hijab.ir
خواتین کا میک اپ اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ہتھیار
۔ اس پوسٹر میں خواتین کی آرائش و زیبائش کی اشیاء جیسے کہ لپ اسٹک یا سُرخی کو اسلحہ جات سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ جس طرح پستول میں ایک وقت میں درجنوں گولیاں بھر کر اسے انسانی ہلاکتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اُسی طرح ہونٹوں کو شعلے کی طرح سُرخ کرنے والی لپ اسٹک معاشرے میں اخلاقی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
تصویر: Hijab.ir
اونچی ایڑی اور سُرخ جوتے اشتعال انگیزی کی علامت
’اونچی ایڑی والے سُرخ رنگ کے جوتے‘ نسوانیت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم ان کے ساتھ اُٹھائے جانے والے قدموں کو ’جہنم کی طرف گامزن قدم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اونچی ایڑی والے جوتوں کو پہن کر چلنے سے عورت کے حسن کی پنہاں زیب و زینت آشکار ہو جاتی ہے اور ان جوتوں کی آواز بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
تصویر: Hijab.ir
با حجاب با غیرت، بے حجاب بے غیرت
ایرانی روایتی ثقافت میں ’سیب زمینی‘ یا آلو بے غیرتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اس علامت کو خاص طور سے بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا۔ اس تصویر میں ایک طرف با حجاب خاتون کو دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب بے حجابی کی علامت کو۔
تصویر: Hijab.ir
حجاب، محفوظ اشیاء کی علامت
اس تصویر میں با حجاب اور بے حجاب خواتین کو بطورعلامت استعمال کیا گیا ہے۔ یہ پوسٹر انگریزی، فرانسیسی اور عربی زبانوں میں بھی تیار کیا گیا ہے۔
تصویر: Hijab.ir
لڑکیاں، خواتین اور شیطان
ان میں سے بہت سے پوسٹر ایسے ہیں، جن میں خواتین اور لڑکیوں کا ناطہ شیطان سے جوڑا گیا ہے، جیسے کہ اس تصویر میں شیطان ایک ماڈرن لڑکی کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ .
تصویر: Hijab.ir
آلودگی سے بچانے کے لیے کوور ضروری
عورت، حجاب، لولی پاپ اور مکھیاں۔ اس تصویر میں حجاب کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تصویر: Hijab.ir
بےحجابی عورت کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہے
۔ اس پوسٹر میں بے حجاب عورت کو ایک تین پائے والی کرسی سے مماثل قرار دیا گیا ہے، ٹوٹی پھوٹی اور بیکار۔ ایک طرف تپائی کُرسی ہے اور دوسری جانب ایک بے حجاب خاتون، جس پر حریص نگاہیں جمی رہتی ہیں اور آخر کار یہ معاشرے میں ایک ذہنی بیماری کا سبب بن جاتی ہیں۔
تصویر: Hijab.ir
مردوں کی چُبھتی ہوئی نگاہوں سے بچنا
خواتین کے لیے ایک اور پیغام: بارش و طوفان میں چھتری کے ساتھ ساتھ حجاب کو فراموش نہ کریں۔ خواتین اپنا دوہرا تحفظ کرتے ہوئے مردوں کی نگاہوں کی بارش سے بچنے کی کوشش کریں۔
تصویر: Hijab.ir
پردے سے پھیلنے والی روشنی
سڑکوں اور گلیوں میں نصب زیادہ تر پوسٹرز اور بل بورڈز پر خواتین کی طرف سے مردوں کے لیے ایک ہی پیغام درج ہوتا ہے، جس میں وہ مردوں کو جنسی کشش سے لُبھانے کی بجائے اپنے حجاب اور پردے سے متاثر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس تصویر میں بھی پیغام یہی ہے کہ باحجاب عورت ہی معاشرے کو روشنی فراہم کر سکتی ہے۔
تصویر: Hijab.ir
12 تصاویر1 | 12
ایران میں جہاں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کی کافی مخالفت بھی کی جاتی ہے، اس رجحان کے برعکس اسی سال اگست میں شہری حقوق کے کئی سرگرم کارکنوں اور چند اہم سیاستدانوں نے کم از کم یہ مہم بھی شروع کر دی کہ ضروری قانونی ترامیم کے بعد ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 برس کی جانا چاہیے۔