1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی مذہبی لیڈر آیت اُللہ ٰ خمینی کی بیسویں برسی

عابد حسین / افسر اعوان4 جون 2009

ایران میں آیت اُللہ خمینی کو انتہائی معتبر حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کے اسلامی انقلاب کے بعد عام ایرانی کی زندگی کو کئی معاملات نے گھیر رکھا ہے جس میں اقتصادی پریشانی سے لیکر آزادئ رائے تک کو شمار کیا جاسکتا ہے۔

آیت اُللہ خمینی، رحلت سے چار سال قبلتصویر: AP

ایران کے مرحوم مذہبی اور سیاسی لیڈر سیّد روح اُللہ خمینی کے انتقال کو بیس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں ایران کے ایوان اقتدار پرجابر اور سخت گیر رضا شاہ پہلوی کے نام کا سکہ چلتا تھا مگر جلاوطنی میں رہتے ہوئے ایرانی مذہبی لیڈر نے اپنی قوم کو جبر کے خلاف تحریک دی اور ایرانی قوم نے مضبوط حکمران کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ اِس اہم کامیابی پربین الاقوامی معتبر ہفت روزے ٹائمز نے روح اُللہ خمینی کو سن 1979کی اہم ترین شخصیت یعنی Man of the year قرار دیا۔

آیت اُللہ خمینی کی نوجوانی کی تصویر

روح اُللہ خمینی اپنے دور میں اثنا اشری شیعہ مسلک میں اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہو گئے تھے۔ تمام بڑے علماء نے اُن کی مرجعیت یا تقلیدکا احترام کیا۔ ان کے مخالفین نے طوہاً کراہاً اُن کو آیت اُللہ العظمیٰ ماننے میں عافیت سمجھی تھی۔ یہ شاید اُن کی مذہب کے ساتھ ساتھ سیاسی کامیابی بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ اُنہوں نے ایران میں انقلاب اسلامی کی بنیاد رکھی تھی مگر دانشوروں کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ایران میں شاہی جبر اور آمریت کی جگہ مذہبی جبر نے لے لی ہے۔ ہر وہ شخص جس نے حکمرانوں یا مذہبی اکابرین کے کسی فیصلے یا عمل پر نکتہ چینی کی وہ معتوب ٹھہرایا گیا۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اِس جبر کا اندازہ روح اُللہ موسوی کے پڑنواسے سیّد علی حسین خمینی کے سن دو ہزار تین کے بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے اسلامی جمہوریہ کے حوالے سے کہا تھا کہ ایرانی قوم کو آزادی کی ضرورت ہے۔ اگر اِس آزادی کے لئے امریکی اثر و رسوخ سامنے آیا تو وہ بغیر تامل کے اِس کو قبول کرلیں گے، اوریہ کہ وہ بطور ایرانی اِس کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔

روح اُللہ خمینی کا مزارتصویر: DW / Nourian

موجودہ ایران میں مذہبی عناصر کی سخت پالیسی کے باعث ہی اصلاح پسندوں کا حوالہ ایرانی سیاسی منظر نامے پرسننے میں آرہا ہے۔ احمدی نژاد کی مدتِ صدارت سے قبل ایران میں اعتدال پسند صدور کو دیکھا گیا جن کو عوام کی تائید حاصل رہی تھی۔ آج کے ایران میں مذہبی جبر کے تناظر میں سیاسی جوڑ توڑ تو شاید نہ نظر آئے لیکن کہیں نہ کہیں مفاہمت کا اسلوب یا چلن حکومت سازی میں دکھائی دیتا ہے جس سے عام ایرانی نالاں ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ایران میں اقتصادی صورت حال خاصی گھمبیر ہے اور ایرانی سماجیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کے حکمرانوں کی غلط مالی پالیسیوں کی وجہ سے افراطِ زر میں انتہائی اضافہ ہوگیا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ بے روزگاری نے ایرانی قوم کے لئے اقتصادی مشکلات بڑھا رکھی ہیں۔

انقلاب ایران کے بعد سے ایرانی سیاست میں مذہبی اکابرین کی مداخلت نے بھی سیاستدانوں پر عرصہٴ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اِس میں ہو سکتا ہے کہ امام خمینی کا بہت زیادہ کردار نہ ہو لیکن اُن کی رحلت کے بعد مسلسل سخت گیر مذہبی علماء کی پالیسی سازی میں شمولیت اور اعتراضات سے سیاسی فضا بوجھل اور گھمبیر محسوس کی جاتی ہے۔ ایرانی سماجیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست میں مذہبی سکالرز کی شمولیت امکاناً امام خمینی ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اپنی کتاب وِلایتِ فقیہ میں انہوں نے عمومی سیاست کو مذہبی سیاست یا Theocratic Politics کا رنگ دیا تھا جو خاصا اہم ہے۔

آیت اُللہ خمینی، جلاوطنی ختم کرنے کے بعد ایران میں ہوائی جہاز سے باہر آتے ہوئے۔

خمینی نے سیاسی نظام میں مذہبی اکابرین کی عملی شمولیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھاکہ سیاسی اور سماجی نظام میں بدعنوانی اور جبر کے خلاف یہ لوگ مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ کہ مذہبی دانشور کمزور اور طاقتور کو برابری کی سطح پر رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور انہی کی بدولت اسلامی شعار کے منفی عوامل کی تطہیر ہوتی رہتی ہے۔

ایرانی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کاغذ پر لکھے یہ الفاظ بہت حسین ہیں لیکن عملی طور پر یہ خیالی دنیا سے جڑے ہیں کیونکہ اقتدار کا نشہ ہضم کرنا انتہائی دشوار کام ہے اور ہمہ شمہ بڑی آسانی سے اِس نشے میں بہک جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے آج کے ایران کے اندر شاہی دور کے جبر و استبداد کے بعد اب مذہبی جبر بڑی شدت سے ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اِس صورت حال میں انسانی حقوق کے منافی کئی کام سرکاری اور انفرادی سطح پر ریکارڈ کئے جا رہے ہیں اور مذہبی اکابرین کے احتساب کا انتہائی فعال ادارہ ایران میں اگر ہے بھی تو وہ لاچار اور بے بس ہے۔

ایران میں اعتدال پسند سیاسی لیڈران میں اہم نام، علی اکبر ہاشمی رفسنجانیتصویر: AP


روح اُللہ موسوی خمینی کے والد کا نام مصطفیٰ موسوی تھا۔ وہ دارالحکومت تہران سے تین سو کلو میٹر کی دوری پر واقع قصبے خمینی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ شیعہ امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے بتائے جاتے ہیں۔ اُن کا خاندان علماء کا خاندان تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کے والد کو رضا شاہ پہلوی کے دور میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ پہلوی حکومت اِس قتل کے درپردہ موجود تھی۔ امام خمینی اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد قم اور نجف اشرف کی دینی درسگاہوں میں سیاسی فلسفہ، اسلامی تاریخ اور اخلاقیات کے لیکچر دینے لگے۔ سن اُنیس سو تریسٹھ میں سیّد حسین بروجردی کی رحلت کے بعد وہ آیت اُللہ کے منصب پر فائز کئے گئے تھے۔ وہ رضا شاہ پہلوی کی جانب سے سن اُنیس سو تریسٹھ میں متعارف کروائے جانے والے انقلاب سفید کے سخت ترین ناقدوں میں شمار ہوتے تھے۔ اِس کے علاوہ ، وہ پہلوی دور میں ایران میں بڑھتے امریکی اثر کے خلاف بھی بولتے تھے۔ پہلوی دور کی مخالفت میں اُن کو سن 1964 میں مہاجرت پر مجبور کردیا گیا تھا۔ وہ عراق ، ترکی اور فرانس میں مقیم رہے تا وقتیکہ پہلوی دور کا اختتام نہ ہو گیا۔

امام خمینی کے ایران میں اسلامی انقلاب کا ذکر اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ڈاکٹر علی شریعتی کا ذکر نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی تعلیمات کو تقریباً سبھی ایرانی مفکر اسلامی انقلاب کی روح تصور کرتے ہیں۔ اُن کی فکر نے بھی ایرانی قوم میں تبدیلی کا احساس پیدا کیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں