ایرانی مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال
14 فروری 2011ایرانی دارالحکومت تہران میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے اِن مظاہرین کا راستہ روک رکھا تھا۔ یہ جلوس اصلاحات کی حامی اُس ایرانی اپوزیشن کی جانب سے طاقت کے مظاہرے کی ایک کوشش ہے، جو دسمبر 2009ء کے بعد سے سڑکوں پر نہیں نکلی ہے۔ تب آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اب بھی اِس بات کا قوی امکان ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز کسی بھی قسم کے احتجاج کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گی۔
تیونس اور مصر میں جس طرح سے عوام نے اپنے احتجاج کے ذریعے عشروں سے وہاں برسرِ اقتدار چلے آ رہے اپنے اپنے صدور کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا، ایرانی عوام میں اُسے زبردست پذیرائی ملی ہے۔ اِسی پذیرائی سے ایرانی اپوزیشن کے قائدین میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے فائدہ اٹھانا چاہا اور اِن دونوں ممالک کے عوام کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے مظاہرے منظم کرنے کا پروگرام بنایا تاہم حکام نے اِس کی اجازت نہیں دی ہے۔
اجازت نہ ملنے کے باوجود ایرانی اپوزیشن مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن قائد موسوی کی ویب سائٹ کے مطابق اُنہیں اور اُن کی اہلیہ زَہرہ کو اِس مارچ میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا اور یہ کہ صبح ہی سے پولیس نے موسوی کے گھر کو جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ دوسرے اپوزیشن قائد مہدی کروبی بھی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ گزشتہ تقریباً ایک ہفتے سے اپنے گھر پر عملاً نظر بند ہیں اور اُن کے رشتہ داروں کو بھی اُن سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ ایرانی حکام نے اپوزیشن کو کوئی ’سکیورٹی بحران‘ پیدا کرنے سے خبردار کیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ شاہراہِ آزادی اور شاہراہِ انقلاب پر سینکڑوں مظاہرین موجود ہیں، جو وہاں سے مرکزی تہران میں واقع آزادی چوک کی طرف مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ عینی شاہدوں کے مطابق سکیورٹی فورسز کے بھی سینکڑوں ارکان وہاں تعینات ہیں، جو مظاہرین کے گروپوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اُنہیں منتشر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تازہ ترین خبروں میں عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مظاہرین کو منشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی جا رہی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کو موقع پر جا کر اِن مظاہروں کی رپورٹنگ سے روک دیا گیا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ