ایرانی پارلیمان نے ملکی میزائل پروگرام اور سپاہ پاسداران انقلاب کے لیے بجٹ میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ اتوار کے دن ہونے والی ووٹنگ میں تمام ممبران نے متقفہ طور پر عسکری بجٹ میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی پارلیمان نے تیرہ اگست بروز اتوار اپنے میزائل پروگرام اور ایلیٹ ریوولوشنری گارڈ ملیشیا کے بجٹ میں اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس مجوزہ قانون کی پارلیمان سے منظوری دراصل حالیہ امریکی پابندیوں کا جواب ہے۔ امریکی حکومت نے ابھی حال ہی میں ایران کے میزائل پروگرام کی وجہ سے اس پر تازہ پابندیاں عائد کی تھیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مجوزہ قانون کے تحت میزائل پروگرام کے بجٹ میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ ایران میں محافظین انقلاب فورس کے بجٹ کو عمومی طور پر خفیہ ہی رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ عالمی طاقتوں کو تہران حکومت کے میزائل پروگرام پر تحفظات ہیں تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کا یہ پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد تازہ امریکی پابندیاں ناجائز ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایران اور عالمی طاقتوں نے ویانا مذاکرات کے بعد ایک ڈیل کی تھی، جس کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود بنانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس ڈیل کے تحت اقوام متحدہ کے آزاد معائنہ کار ایرانی جوہری تنصیبات کا معائنہ بھی کرتے ہیں تاکہ علم رہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہی ہے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
تہران حکومت کا کہنا ہے کہ اس جوہری ڈیل میں ایرانی کے میزائل پروگرام کا کوئی تذکرہ نہیں تھا اور اب اس تناظر میں تہران حکومت پر پابندیاں عائد کرنا ویانا ڈیل کی خلاف ورزی ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔
مقامی میڈیا نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے میزائل پروگرام کو ایک بہانہ بنا کر جوہری ڈیل کی ناکامی کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔
ظریف کے مطابق ایران جوہری ڈیل پر عمل پیرا رہے گا۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عالمی طاقتیں اس ڈیل پر مؤثر طریقے سے عملدرآمد کرانے کی خاطر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں تو ایران بھی اس مناسبت سے اپنا ردعمل ظاہر کرے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اس ڈیل کے تحت ایران کو کافی زیادہ چھوٹ دی گئی ہے۔