پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی طاقت اور قوت کا اعتراف اب مشرق وسطیٰ میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی حفاظت اور غیر ملکی خطرات کا سامنا کرنے کی ذمہ داری اسی خصوصی فوج کے ہاتھوں میں ہے۔
اشتہار
پاسدارانِ انقلاب (Islamic Revolutionary Guard Corps) ایران کی وہ فوج جس کو انتہائی جدید خطوط پر منظم کیا گیا ہے اور اس کی طاقت بے پناہ اور اختیارات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ انتہائی جدید تربیت کی حامل اس فوج میں ایک لاکھ پچیس ہزار جدید اسلحے سے لیس اہلکار شامل ہیں۔ یہی پاسداران انقلاب نیم فوجی ملیشیا بسیج کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ بسیج کے اہلکاروں کی تعداد نوے ہزار ہے۔ اسی طرح مجموعی طور پر پاسداران انقلاب کے فوجیوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔
پاسداران انقلاب کب اور کیوں وجود میں آئی؟
پاسدارانِ انقلاب کی تشکیل انقلاب اسلامی کے فوری بعد سن 1979 میں کی گئی تھی۔ اس کے قیام کا بنیای مقصد اور ذمہ داری ایران کی شیعہ علماء کی حکومت کا تحفظ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شیعہ علماء کی مخالف سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حامی قوتوں کی سرکوبی کا مشن بھی اب پاسداران انقلاب کے سپرد ہے۔
پاسدارانِ انقلاب کے دائرہ کار میں اضافہ ایرانی اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ العظمیٰ خمینی نے اُس وقت کیا جب عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین نے سن 1980 میں ایران پر فوج کشی کی تھی۔ آیت اللہ خمینی نے اس خصوصی فوج کو زمینی کارروائی کے علاوہ فضائی اور بحری افواج کے دستوں کی تشکیل کا حکم بھی دیا۔ اِس وقت ایران کے میزائل پروگرام پر بھی پاسداران انقلاب کو کنٹرول حاصل ہے۔ بیلسٹک میزائل کے تجربات بھی اس کی ذمہ داری ہے۔
ریاست کے اندر ریاست
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاسداران انقلاب ایران کے اندر ایک اور دنیا ہے اور اسے ریاست کے ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ملکی صدر یا پارلیمنٹ یا وزیر دفاع کے تابع نہیں بلکہ براہ راست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جواب دہ ہے۔ اس خصوصی حیثیت کی وجہ سے اس کے دائرہ کار میں خصوصی قانونی، سیاسی اور مذہبی اختیارات آتے ہیں اور یہ ان کے استعمال میں کوئی رعایت نہیں کرتی۔
پاسدارانِ انقلاب کے چھوٹے بڑے اڈے ملک کے سبھی صوبوں میں قائم ہیں۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی سے ایران کا کوئی کونا بھی بچا ہوا نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنا خفیہ نیٹ ورک بھی قائم کر رکھا ہے۔ ان مراکز کے علاوہ اس فوج نے کئی وسیع و عریض فوجی کمپلیکس مختلف شہروں میں قائم کر رکھے ہیں۔ اب تو اس خصوصی فوج نے ملکی معیشت اور اقتصادی اصلاحات کی نگرانی بھی شروع کر دی ہے۔
القدس فورس کی تشکیل
سن 1989 میں آیت اللہ خمینی کی رحلت کے بعد خامنہ ای اِس طاقتور اور با اثر منصب پر براجمان ہوئے۔ انہوں نے پاسدارانِ انقلاب کی ایک ذیلی شاخ القدس فورس کو تشکیل دیا۔ القدس فورس بیرون ایران فوجی آپریشن کے لیے قائم کی گئی تھی۔ القدس کو رضا شاہ پہلوی کی کمانڈو فوج امپریل گارڈز کا متبادل قرار دیا گیا۔ یہ جدید تربیت یافتہ کمانڈوز ہیں۔ ان کی تعداد دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
میجر جنرل قاسم سلیمانی
القدس فورس کے موجودہ سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہیں۔ انہی کی مشاورت سے عراق اور شام کی حکومتوں نے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دینے کی حکمت عملی مرتب کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی شامی صدر بشار الاسد، انتہا پسند فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان کی شیعہ عسکری تحریک حزب اللہ کے بھی بہت قریب ہیں۔
انہی تعلقات کی بنیاد پر امریکی حکومت ایران پر الزام رکھتی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان الزامات کے باوجود امریکا نے ابھی تک پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد گروپوں میں شامل نہیں کیا ہے۔ امریکا نے اس ایرانی فوج پر دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے پر کئی قسم کی پابندیاں ضرور عائد کر رکھی ہیں۔
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔