ایرانی پالیسیاں اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں، جرمن چانسلر میرکل
28 جنوری 2019
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ تہران میں ایرانی حکومت جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، وہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں اور جرمنی ایرانی حکمت عملی کے باعث اسرائیل میں پائی جانے والی تشویش کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے پیر اٹھائیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق چانسلر میرکل نے یہ بات اتوار کی رات اسرائیل میں ایک ریڈیو سے نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ انگیلا میرکل کا یہ انٹرویو اتوار ستائیس جنوری کو منائے جانے والے ہولوکاسٹ میموریل ڈے کے موقع پر نشر کیا گیا۔
میرکل نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل ایرانی پالیسیوں پر جس تشویش کا اظہار کر رہا ہے، وہ جرمنی کے لیے قطعی قابل فہم ہے اور یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اسرائیل کے لیے اس کے سلامتی سے متعلق مفادات کا تحفظ درست بھی ہے اور اس کا حق بھی۔
جرمن چانسلر نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کی یاد میں منائے جانے والے یادگاری دن کے موقع پر اسرائیلی ریڈیو کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا، ’’یہ درست ہے کہ ایران ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، جو اسرائیل کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔‘‘
اسی انٹرویو میں جب جرمن سربراہ حکومت سے اسرائیل کے ہمسایہ اور خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اسرائیل کی طرف سے ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے فضائی حملوں سے متعلق ایک سوال کیا گیا، تو چانسلر میرکل نے کہا، ’’اسرائیل کو لازمی طور پر اپنی بقا کا تحفظ کرنا ہے۔ اور شام کی صورت حال بھی ظاہر ہے کہ اسرائیل کے لیے بہت پرخطر ہے۔‘‘
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
تصویر: dapd
8 تصاویر1 | 8
اسی پس منظر میں جرمن چانسلر نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا، ’’یہی وجہ ہے کہ ہم اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ، مثال کے طور پر، شام میں ایرانی دستے گولان کی پہاڑیوں کے قریب تک نہ پہنچیں۔‘‘ میرکل کے مطابق وہ اس بارے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی بات چیت کر چکی ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ ہفتے شام میں ایرانی اہداف کو بڑے فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے یہ حملے اس لیے کیے تھے کہ ان سے قبل گزشتہ اتوار کی رات جنگ زدہ شام سے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے شمالی حصے پر ایک راکٹ فائر کیا گیا تھا۔
اسرائیلی ایئر فورس اب تک شام میں مختلف اہداف پر متعدد مرتبہ حملے کر چکی ہے، جن کا مقصد اس کے مطابق یہ تھا کہ بڑے حریف ملک ایران کو شام میں اس کی مستقل فوجی موجودگی سے روکا جا سکے۔ شامی خانہ جنگی میں ایران اور روس صدر بشار الاسد کے بڑے سیاسی اور عسکری اتحادی ہیں۔
م م / ع ا / ڈی پی اے
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔