گنابادی صوفیوں کے ایرانی پولیس کے ساتھ حالیہ تصادم نے اس بارے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر یہ صوفی کون ہیں اور ان کے ساتھ تہران حکومت کے کیا مسائل ہیں۔
اشتہار
حال ہی میں ایرانی دارالحکومت میں گنابادی صوفیوں اور حکومتی سکیورٹی اہلکاروں کے مابین جھڑپوں میں پانچ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت بعد یہ موضوع عوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے کہ گنابادی صوفی کون ہیں؟
گنابادی صوفی طریقت کا سلسلہ دراصل چودھویں اور پندرہویں صدی کے ایک ایرانی صوفی شاہ نعمت اللہ ولی سے ملتا ہے۔ ان کی پیدائش کے بارے میں بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ شاہ نعمت شامی شہر حلب میں پیدا ہوئے تھے جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ ان کی پیدائش ایران کے صوبے کرمان میں ہوئی تھی۔ شاہ نعمت اللہ ولی اپنی نسبت شیعہ مسلمانوں کے ساتویں امام موسیٰ الکاظم سے بتاتے تھے۔ شاہ نعمت اللہ نے اپنی پوری زندگی اسلامی فلسفے کے مطالعے میں گزاری اور پوری مسلم دنیا کا سفر کرتے ہوئے خود کے لیے ایک پیر کی تلاش میں رہے۔ آخر کار انہوں نے ممتاز صوفی فلسفی اور شاعر ابن العربی کی تصانیف اور ان کی تعلیمات اور فلسفے سے بے حد استفادہ کیا اور انہی کو اپنا پیر ماننے لگے۔
مذہب ایک تشریح دو
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
10 تصاویر1 | 10
گنابادی درویش 12 اماموں کو ماننے والے اثنا عشری شیعہ مسلمان ہیں۔ یہ روزہ اور نماز جیسے فرائض دین کی ادائیگی بھی دیگر شیعہ مسلمانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔ گنابادی درویشوں کا نظریہ تاہم اسلام کی موجودہ شکل سے مختلف ہے۔ یہ حکومت اور سیاست پر یقین نہیں رکھتے نہ ہی دیگر شعیہ مسلمانوں کی طرح ’ولایت فقیہ‘ کے معتقد ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام اور درویشی فقہ نہیں بلکہ ’عشق‘ کے مدار کے گرد گھومتا ہے۔ ان کی نگاہ میں ’محبت، رواداری، امن، بھائی چارگی اور انسانوں کے مابین افہام و تفہیم‘ ہی دین و عقیدے کی بنیاد ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ سیاسی سوچ کے حامل نہیں۔
حکومت ایران کو گنابادی درویشوں سے ممکنہ خطرات
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اور خاص طور سے گزشتہ دہائی کے دوران گنابادی صوفیوں پر حکومت کی کڑی نظر رہی ہے۔ انہیں اکثر و بیشتر گرفتار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ صوفی حکومت اور انتظامیہ کے خلاف پروپیگینڈا کرتے ہیں اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ علاوہ ازیں تہران کی اسلامی حکومت ان پر یہ الزام بھی عائد کرتی ہے کہ یہ صوفی ایک ایسے گروہ کا حصہ ہیں جو عوام کو ’حقیقی روشنی‘ سے منحرف کر رہا ہے۔ بہت سے گناباد صوفی متعدد بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کے خلاف ان درویشوں نے اکثر بھوک ہڑتال بھی کی۔
یہ درویش مجذوبیت کی انتہا عبادت میں نہیں بلکہ ’عاشق و معشوق‘ یا ’پیر و مرشد‘ کے ساتھ یگانگت اور روحانی اختلاط میں پاتے ہیں۔ ان کے یہی نظریات کچھ عام ایرانی شہریوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ارباب اقتدار اور سیاسی قوت پر سخت گرفت رکھنے والا ایرانی طبقہ ہمیشہ سے صوفی اسلام کے پھیلاؤ سے خائف رہا ہے۔