امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران ’آگ سے کھیل رہا ہے‘۔ ٹرمپ کا یہ بیان ایران کی طرف سے افزودہ یورینیم کے ذخائر 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں طے شدہ حد سے بڑھانے کے بعد سامنے آئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپتصویر: picture-alliance/dpa/abaca/Pool/Polaris/M. Theiler
اشتہار
اقوام متحدہ کی جوہری توانائی پر نظر رکھنے والی ایجنسی آئی ای اے ای کی طرف سے اس بات کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 300 کلوگرام کی اُس حد سے تجاوز کر گیا ہے جو 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں مقرر کیی گئی تھی۔ قبل ازیں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی مئی میں کہا تھا کہ 'ایران نے اپنے منصوبے کے مطابق 300 کلوگرام کی حد سے بڑھا دی ہے‘۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ اقدام واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ایران کو صرف تین سو کلوگرام کم افزودہ یورنیم رکھنے کی اجازت ہے۔
اسرائیل نے حالیہ پیشرفت کے بعد یورپی اقوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف پابندیاں عائد کریں۔ دوسری طرف روس نے ایران کے اس اقدام پر افسوس کا اظہار تو کیا ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایران کے خلاف امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے، جو اس معاہدے کو ختم کرنے کی حد تک لے آیا ہے۔
برطانیہ نے بھی ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تاریخی جوہری معاہدے کے خلاف 'مزید اقدامات‘ سے گریز کرے جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے تہران حکومت کو تنبیہ کی ہے وہ جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر برقرار رہے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی مئی میں کہا تھا کہ ایران نے اپنے منصوبے کے مطابق 300 کلوگرام کی حد سے بڑھا دی ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں جب صحافیوں نے ایران کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا، ''انہیں معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کس چیز سے کھیل رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘‘
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء میں طے پانے والا جوہری معاہدہ گزشتہ برس اُس وقت سے بے یقینی کا شکار ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہوتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ امریکی پابندیوں کا سب سے بڑا ہدف ایرانی تیل کی برآمدات کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔
اس معاہدے میں شامل دیگر طاقتیں ابھی تک اس کوشش میں ہیں کہ اس جوہری معاہدے کو بچایا جائے۔ ایران بھی ان طاقتوں سے بار بار تقاضا کرتا آیا ہے کہ وہ اسے امریکی پابندیوں سے سبب پہنچنے والے نقصانات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔