1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: احتجاج کی لہر پاکستان سے متصل صوبوں تک پہنچ گئی

3 اکتوبر 2022

ایران میں تقریباً تین ہفتے سے جاری احتجاج کی لہر پاکستان سے متصل صوبوں تک پہنچ گئی جس کے بعد زاہدان میں پاک، ایران سرحد عارضی طور پر بند کر دینے کی خبریں ہیں۔ پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 100 کے قریب پہنچ چکی ہے۔

Polen | Proteste in Krakau gegen den Tod von Mahsa Amini
تصویر: Beata Zawrzel/NurPhoto/picture alliance

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے بعد حکام نے پاکستان سے ملحق تفتان میں سرحد بند کر دی ہے۔

پاکستان کی وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ذرائع کے مطابق ایران کی طرف کے حصے میں زیرو پوائنٹ پر امیگریشن اور ٹرانزٹ گیٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں سرحد کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

 سرحد پر موجود پاکستانی سکیورٹی حکام کے مطابق ایران نے پاکستان سے آنے والوں کے لیے امیگریشن سروس بند کر دی ہے۔ تاہم ایران سے لوگوں کی معمول کی نقل و حرکت جاری ہے۔

ہلاکتوں کی تعداد 92 سے زیادہ

حقوق انسانی کی تنظیم 'ایران ہیومن رائٹس'(آئی ایچ آر)نے اتوار کے روز جاری ایک بیان میں کہا کہ مہسا امینی کے ہلاکت کے خلاف ایران کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک کم از کم 92 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ جب کہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق ہلاکتوں   کی تعداد 100سے تجاوز کرچکی ہے۔

احتجاجی مظاہروں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک کم از کم 92 افراد ہلاک ہوچکے ہیںتصویر: SalamPix/ABACA/picture alliance

اوسلو سے سرگرم آئی ایچ آر نے بتایا کہ کہ ایران کی سکیورٹی فورسز نے صوبہ سیستان، بلوچستان کے شہر زاہدان میں ہونے والی جھڑپوں میں 41 افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔

ایران: حجاب تنازعے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئی ایچ آر نے ایرانی سکیورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ وہ زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو 'خون ریزی کے ذریعے دبانے‘ کی کوشش کر رہی ہیں۔ خبروں کے مطابق یہ ہنگامے صوبہ سیستان بلوچستان کے ساحلی شہرچاہ بہار کے ایک پولیس سربراہ کی 15 سالہ لڑکی کے ساتھ مبیّنہ جنسی زیادتی پر پھوٹ پڑے تھے اور لوگ اپنے غیظ وغضب کے اظہارکے لیے سڑکوں پرنکل آئے تھے۔ پھر ان مظاہروں نے تشدد کا رُخ اختیار کر لیا تھا۔

ایران: مظاہروں میں متعدد ہلاکتیں، انٹرنیٹ پر پابندی عائد

 زاہدان میں پرتشدد واقعات میں ایرانی پاسداران انقلاب کے پانچ اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ ادھر ایران کی وزارت انٹیلیجنس نے بتایا کہ"تشدد کو ہوا دینے " کے الزام میں نو غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں فرانس، جرمنی، اٹلی اور نیدرلینڈ کے شہری شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ممنوعہ اپوزیشن گروپوں کے 256 افراد کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے۔حجاب تنازعہ: تہران نے برطانوی اور نارویجیئن سفیروں کو طلب کرلیا

حجاب تنازعہ: تہران نے برطانوی اور نارویجیئن سفیروں کو طلب کرلیا

دنیا کے 150 سے زائد ملکوں میں ایران کے حجاب کے سخت قوانین کے خلاف لوگوں نے جلوس نکالےتصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS

مظاہرے پڑوسی ملکوں میں بھی پھیل گئے ہیں

 مہسا امینی  کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد حجاب مخالف مظاہروں کا سلسلہ اب پڑوسی ملکوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ اتوار کے روز عراق اور ترکی میں بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ ترکی میں مظاہرین نے ایرانی پاسپورٹ پھاڑ دیے جب کہ بعض خواتین نے اپنے بال کٹوا کر مہسا امینی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

جرمنی کی طرف سے بھی مہسا امینی کی موت کی مذمت

لندن اور پیرس سمیت دنیا بھر کے 150 سے زائد ملکوں میں ایران کے حجاب کے سخت قوانین کے خلاف اور مہسا امینی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر لوگوں نے جلوس نکالے۔

ایران کی وزارت انٹیلیجنس نے "تشدد کو ہوا دینے " کے الزام میں نو غیر ملکیوں کو گرفتار کیا ہےتصویر: Mathiew Leiser/AFP/Getty Images

'دشمنوں کی سازش' ناکام ہوچکی ہے، رئیسی

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اتوار کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ دشمنوں کی سازش ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا،"دشمن ملک کو تنہا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن وہ شکست کھا گئے ہیں۔ ان کی سازش کو کچل دیا گیا ہے۔"

صدر رئیسی نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کرنے والوں اور امن عامہ کے لیے خطرہ بننے والوں کو سختی سے کچل  دیا جائے۔

ایران: مظاہرین کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ کی جائے، صدر رئیسی

ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ مظاہروں اور حالیہ مظاہرے میں یہ فرق ہے کہ سابقہ مظاہرے اصلاحات کے لیے تھے لیکن مہسا امینی کے نام پر ہونے والے مظاہرے حکومت کو گرانے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا، "ماضی کے مظاہروں کی اہم بات یہ تھی کہ وہ اصلاحات کے لیے تھے، ان کا مقصد حکومت کو گرانا نہیں تھا۔ جو لوگ بھی مظاہرے کر رہے ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے مظاہروں کو اداروں کو غیر مستحکم اور معزول کرنے کی اجازت نہ دیں۔"

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں