1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

ایران اسرائیل تنازعہ: کیا ترکی بھی اس میں شامل ہو جائے گا؟

8 اکتوبر 2024

ترکی فلسطینیوں کا حامی اور اسرائیل کا ناقد ہے جبکہ ایران کے ساتھ دور سے ہی سلام دعا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے علاقائی تنازعے میں ترک فوج کی شمولیت کا امکان کم ہی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوآن اکتوبر 2023 میں استنبول میں فلسطین حامی ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں
ترک صدر رجب طیب اردوآن اکتوبر 2023 میں استنبول میں فلسطین حامی ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: DHA

گزشتہ کئی مہینوں سے متعدد ممالک مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اضافے سے متعلق خبردار کر چکے ہیں۔ اسرائیل پر ایران کے تازہ حملے کے بعد اب یہ خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

حزب اللہ کے نقصان میں ترکی کا فائدہ ہے: تجزیہ کار

ایران مشرق وسطیٰ کی علاقائی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا ترکی ہے اور انقرہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد سے فلسطینی عوام کا ساتھ دے رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بارہا اسرائیل پر'نسل کشی‘ کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے بارہا اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نہیں دیکھتے اور اکثر اپنے ''فلسطینی بھائیوں‘‘ کی بات کرتے ہیں۔

ملکی سیاسی مقاصد کے لیے خارجہ پالیسی کا استعمال

ایردوآن نے حال ہی میں اپنے ہی ملک کے عوام میں خوف پیدا کر دیا جب یکم  اکتوبر کو ترک پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ترکی پر بھی حملہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''اسرائیلی حکومت جو کہ پاگل ہو چکی ہے، فلسطین اور لبنان کے بعد ممکنہ طور پر ہمارے وطن کو بھی اپنی مذہبی جنونیت کا نشانہ بنائے گی۔‘‘ صدر ایردوآن نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اناطولیہ پر قبضے کا خواب دیکھتے ہیں اور ''خواب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔‘‘

ترک صدر ایردوآن شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کو تیار

لیکن لندن سکول آف اکنامکس کی ماہر سیاسیات سیلین ناسی صدر ایردوآن کے بیانات کو غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں یہ منظر نامہ ناممکن ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ ترکی پر حملہ کرنے کا مطلب نیٹو اور امریکہ کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے پاس ترکی پر حملہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘

ناسی نے مزید کہا کہ ایردوآن اپنی بنیاد کو مضبوط کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترکی کے پاس نیٹو میں دوسری سب سے بڑی فوج ہے، جو اسے نہ صرف فوجی طور پر مضبوط بناتی ہے، بلکہ اسرائیل کی طرح وہ امریکہ کا قریبی اتحادی بھی ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ایمریٹس اور استنبول بلجی یونیورسٹی کے سابق ریکٹر التر توران کا کہنا ہے کہ ایردوآن کے بیانات کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ''صدر ایردوآن خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی سیاسی مقاصد کے لیے آلہ کار بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کا یقینی طور پر ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انقرہ بڑی ملکی سیاسی ناکامیوں کے پیش نظر دیگر مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ایردوآن گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے بعد سے سیاسی حمایت کھوتے جا رہے ہیں۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی موت سے چند ہفتے قبل اردوآن نے انقرہ کے صدارتی محل میں ان کا خیرمقدم کیاتصویر: Mustafa Kamaci/Anadolu/picture alliance

ترکی مداخلت کی ہمت کرے گا؟

التر توران کے مطابق ترکی کے جنگ میں فریق بننے کے امکانات صفر ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ''ترکی اس تنازعے میں فعال طور پر حصہ نہیں لے گا، کیونکہ انقرہ جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘ انقرہ اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف ممکنہ انتقامی کارروائی کو منظور نہیں کرے گا، کیونکہ ترکی ایران کے ساتھ دور کی دوستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ توران نے کہا کہ اگرچہ حکومت ممکنہ طور پر تہران کو اخلاقی مدد کی پیشکش کر سکتی ہے، لیکن وہ اس سے آگے نہیں بڑھے گی۔

لندن  اسکول آف اکنامکس کی سیلین ناسی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ''ترک حکومت کے فلسطین نواز اور اسرائیل مخالف موقف نے یہ غلط تاثر پیدا کیا ہے کہ وہ ایران اور اس کی ملیشیاؤں کی حمایت کرتی ہے۔ یہ گمراہ کن ہے۔‘‘ ناسی نے کہا کہ ترکی اپنی معیشت کو مست‍حکم کرنے پر توجہ دے رہا ہے اور علاقائی تصادم  عدم است‍حکام میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ ''ترکی اسرائیلی فوج کے ساتھ تصادم نہیں کرے گا۔‘‘

حریف لیکن باہمی احترام کے ساتھ

قطر میں ترکی کے سابق سفیر مدحت ریندے، جو خطے کی جغرافیائی سیاسی حرکیات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، نے کہا ترکی، ایران اور سعودی عرب ''ماضی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کرتے رہیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''ترکی ایران کے ساتھ 'احتیاط اور احترام کے ساتھ‘ تعلقات استوار کرتا ہے، حالانکہ جب علاقائی تنازعات کی بات ہوتی ہے، تو تہران اور انقرہ کے موقف اکثر مختلف ہوتے ہیں۔‘‘

ریندے نے کہا، ''ترکی نہیں چاہتا کہ ایران خطے میں اپنے تسلط کو ان غیر ریاستی عناصر کے ذریعے بڑھا سکے جن کی وہ حمایت کرتا ہے اور جن کو وہ ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے مقصد میں بھی شریک ہے۔‘‘

یہ مسکراتے ہوئے چہرے اب صرف تاریخ ہیں: ستمبر 2023 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اردوآن اور نیتن یاہو دوستانہ انداز میں کیمروں کے سامنے پوز دیتے ہوئےتصویر: AK Party/Zuma/picture alliance

ترکی حزب اللہ کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟

دونوں علاقائی طاقتوں کے درمیان بنیادی اختلاف اسلام کی ان کی طرف سے کی گئی مختلف تشریحات میں مضمر ہے۔ ترکی بنیادی طور پر سنی ہے اور ایردوآن کی حکومت بنیادی طور پر حماس جیسی سنی تنظیموں کی حمایت کرتی ہے، جسے یورپی یونین اور امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اس کے برعکس ایرانی آبادی زیادہ تر شیعہ ہے، جس کی وجہ سے ایرانی حکومت اور شیعہ گروپوں جیسے لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی باغیوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔

یہ مذہبی اور سیاسی اختلافات ہی دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی سیاسی اتحاد کی تشکیل کرتے ہیں۔

اس طرح کے اختلافات انقرہ کے حالیہ اظہار تعزیت سے بھی ظاہر ہوتے ہیں، جب حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ہوئی تو ایردوآن نے ان کے احترام میں سرکاری سوگ کا اعلان کیا۔ لیکن حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد انہوں نے گوکہ لبنانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، تاہم نصر اللہ کا نام نہیں لیا۔ التر توران کہتے ہیں، ''یہ قابل فہم ہے اور حیران کن نہیں ہے کہ ہمدردی  میں کوئی موازنہ دکھائی نہ دیا۔‘‘

حماس اسرائیل جنگ: ترکی ثالثی کردار ادا کر سکتا ہے؟

04:21

This browser does not support the video element.

ج ا ⁄ م م، ع ا (براق انورین)

یہ مضمون پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع ہوا تھا۔

https://www.dw.com/a-70409149

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں