1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور افغانستان ’داعش‘ سے نمٹنے کے لیے متحد

عاطف بلوچ19 اپریل 2015

ایران اور افغانستان شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی تعاون کو مزید بڑھانے سے متعلق ایک منصوبے پر متفق ہو گئے ہیں۔ یوں یہ ہمسایہ ممالک ممکنہ طور پر مشترکہ عسکری کارروائیاں بھی کر سکیں گے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

افغان صدر اشرف غنی ستمبر میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد اشرف غنی اپنے پہلے سرکاری دورے پر اتوار کے روز ایران پہنچے۔ انہوں نے اپنے دورہٴ تہران کے دوران اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ ملاقات میں باہمی تعاون کے متعدد امور پر تبادلہٴ خیال کیا۔ اس دو روزہ دورے کے پہلے دن غنی نے روحانی کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ عزم ظاہر کیا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خطرات کے تناظر میں علاقائی سطح پر سکیورٹی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔

افغان صدرغنی کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ہفتے کے دن ہی صوبے ننگر ہار میں ہوئے ایک خود کش حملے کی ذمہ داری اس جہادی تنظیم نے قبول کی ہے۔ جلال آباد میں واقع ایک بینک کے باہر ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں 33 افراد ہلاک جبکہ سو زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے میں ایسے سکیورٹی اہلکاروں اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جو اپنی ماہانہ تنخواہ کی وصولی کے لیے بینک کے باہر قطار بنائے ہوئے تھے۔

ہفتے کے دن ہی صوبے ننگر ہار میں ہوئے ایک خود کش حملے کی ذمہ داری اس جہادی تنظیم نے قبول کی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

غنی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر روحانی نے کہا، ’’ہم نے دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف اپنے تعاون کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ بالخصوص دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ روحانی کے بقول، ’’ہمیں خفیہ معلومات کے تبادلے کی ضرورت ہے۔ اگر ضروری ہوا تو عسکری کارروائیوں میں بھی تعاون کیا جا سکتا ہے کیونکہ موجودہ مسائل بڑھ کر علاقائی سطح پر بھی پھیل سکتے ہیں۔

اس موقع پرغنی نے کہا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ ایک سنجیدہ خطرہ ہے، ’’لوگ روزانہ کی بنیادوں پر ہلاک ہو رہے ہیں۔ ہمیں ایک بربریت کا سامنا ہے۔‘‘ ’اسلامک اسٹیٹ‘ (دولت اسلامی عراق و شام، داعش) کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’وسیع تر تعاون کے بغیر داعش جیسے فتنے پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔‘‘ اشرف غنی متعدد مرتبہ خبردار کر چکے ہیں کہ افغانستان میں یہ جہادی گروہ پنپنے کی کوشش میں ہے لیکن ابھی تک اس شدت پسند گروہ نے باقاعدہ طور پر اس ملک میں اپنی موجودگی کا اظہار نہیں کیا ہے۔

ایرانی حکومت عراق میں فعال داعش کے حملوں کو روکنے کے لیے بغداد حکومت کو عسکری اور انتظامی مدد فراہم کر رہی ہے۔ لیکن سردست حسن روحانی اور اشرف غنی نے یہ نہیں بتایا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسے عسکریت پسند گروہ سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں