ایران اور افغانستان کے درمیان تیل کا تنازعہ
17 جنوری 2011ایران سے افغانستان تیل لے جانے والے ٹینکروں کو تہران حکومت نے یہ کہہ سرحد پار کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے کہ وہ نیٹو کو تیل سپلائی کر رہے ہیں۔
ادہر افغانستان میں اس صورتحال کی وجہ سے تیل کا بحران پیدا ہوگیا ہے جس کا براہ راست اثر روز مرہ کی ضروری اشیا پر پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں موسم سرما کے دوران ایرانی تیل کی طلب میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے تجزیہ نگاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ تہران حکومت کے اس عمل کا مقصد دراصل بین الاقوامی برادری کو اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے دباؤ میں لانا ہے۔
افغانستان متعین مغربی دفاعی اتحاد کی فوج واضح کرچکی ہیں کہ وہ ایران سے آنے والے تیل کا استعمال نہیں کرتیں اور اس کی سپلائی میں حالیہ رکاوٹ سے اس کے آپریشن پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ افغان دارالحکومت کابل میں مشتعل مظاہرین نے ایرانی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا اور عمارت پر ٹماٹڑ اور انڈے برسائے۔
افغان وزیر تجارت انوار الحق احدی بھی باضابطہ طور پر ایرانی حکومت کی جانب سے اس اقدام کو ناقابل برداشت قرار دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھی دونوں ممالک کے مابین یہی تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ اس وقت نائب افغان صدر قاسم فہیم نے تہران کا دورہ کرکے معاملہ خوش اسلوبی سے حل کروا لیا تھا۔ واضح رہے کہ افغانستان میں تیل کی 30 فیصد ضروریات ایرانی تیل کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔
ایرانی حکام سپلائی میں پیدا شدہ اس تعطل کی ذمہ داری کابل حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ تہران حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2010ء سے لے کر اب تک لگ بھگ 170 ملین لیٹر تیل ایرانی سرحد کے راستے افغانستان پہنچا ہے۔
دوسری جانب ایک افغان تجزیہ نگار گران ہیواد کا کہنا ہے کہ جوہری تنازعے سے ہٹ کر بھی اس ایرانی اقدام کا ایک مقصد ہے۔ ’’ خطہ سے متعلق پالیسی کے تناظر میں ایران، افغانستان میں جاری امن عمل کی مخالفت کا اظہار کر رہا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ اس امن عمل کے سلسلے میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ اسی سلسلے کو مزید تقویت دینے کے لیے ان دنوں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر افغانستان کے دورے پر ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عابد حسین