امریکا نے عراق سے غیر ضروری سفارتی عملے کو واپس طلب کر لیا ہے۔ یہ امریکی فیصلہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور ایران کے تنازعے کی شدت ظاہر کرتا ہے۔
اشتہار
امریکی وزارت خارجہ نے عراق سے غیر ضروری سفارتی عملے کو واپس طلب کرنے کی وجہ عراقی شیعہ ملیشیا کے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ گہرے روابط بتائے ہیں۔ امکاناً ان روابط کے تناظر میں عراقی شیعہ ملیشیا امریکی شہریوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ہی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ایران کے جدید فوجی دستے کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے سے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں امریکی شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
پاسدارانِ انقلاب کے حوالے سے امریکی فیصلے کے جواب میں ایرانی پارلیمنٹ نے بھی امریکا کی سینٹرل کمانڈ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر عراق و شام میں امریکی عسکری کارروائیوں کی نگرانی اسی سینٹرل کمانڈ کے سپرد ہے۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ خطے میں کسی بڑے حادثے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ اتفاقاً ہو یا دانستہ، ہر صورت میں ایک شدید علاقائی جنگ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ اس صورت حال میں عراق کو توازن برقرار رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہو گا۔ بغداد حکومت امریکا کی سکیورٹی پارٹنر ہے تو ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ وہ دوستانہ تعلقات رکھتی ہے۔ عراق میں امریکا کے پانچ ہزار کے قریب فوجی متعین ہیں۔
جرمن ادارہ برائے بین الاقوامی و سکیورٹی امور کے محقق گیڈو اشٹائن بیرگ کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں سے عراق کو مشکل حالات کا سامنا رہا ہے اور اس کی وجہ اس کے امریکا اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اشٹائن بیرگ کے مطابق بظاہر عراقی حکومت ایران کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور اس کی بھی کوشش کرے گی کہ کوئی جنگی صورت حال کے لیے عراقی سرزمین استعمال نہ کی جائے۔
جرمن محقق کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی مسلح کشیدگی میں عراق کو شدید جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ ایران کے حامی مسلح گروپ بھی امریکا پر حملے کرنے کی کوشش کریں گے۔ ممکنہ طور پر جواباً عراق میں موجود شیعہ ملیشیا امریکی حملوں کا نشانہ بن سکتی ہے۔
دوسری جانب عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکی موقف کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ایران کی جانب سے ایسے کوئی اشارے سامنے نہیں آئے ہیں جو یہ ظاہر کریں کہ وہ خطرات کو ہوا دے رہا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ایران نے عراق کی مالی معاونت کے علاوہ سیاسی گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کیا ہے۔ ان میں عراقی شیعہ ملیشیا اور اعلیٰ اشرافیہ خاص طور پر اہم ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔